حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ:
’’اہل علم کے ہاں عمر بن عبد العزیزؒ کا شمار پرہیزگار علماء اور خلفاء راشدین کی جماعت میں تھا۔‘‘ (علامہ ذہبیؒ)
پانچویں خلیفہ راشد کی زندگی کے حالات کا ذکر بہت مبارک ہے، ان کے متعلق گفتگو مشک سے زیادہ خوش بودار اور ہرے بھرے باغ سے زیادہ خوب صورت ہے۔ ان کی زندگی کے حالات کا تذکرہ ایک ایسے خوش رنگ اور خوشبو سے بھرے دلکش باغ کی طرح ہے کہ اس باغ میں آپ جہاں بھی سیر و تفریح کے لیے پھریں، آپ کو وہاں ترو تازہ گھاس پودے، خوب صورت پھول اور عمدہ مزید اور خوش ذائقہ تازہ پھل دکھائی دیں گے۔
اگر چہ ہم ان کی زندگی کے حالات کی تفصیل نہیں لکھ سکتے جو تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہے، اس کے باوجود اس مبارک باغ سے چند مبارک پھول وکلیاں چن سکتے ہیں (یعنی ان کی زندگی کے کچھ واقعات ذکر کرسکتے ہیں) اور ان کے تذکرہ سے اپنے ایمان میں اضافہ حاصل کرسکتے ہیں۔
عربی کا ایک مشہور جملہ ہے: (ترجمہ) جو چیز مکمل حاصل نہ کی جا سکے اس کے کچھ حصے کو چھوڑ دینا کوئی عقل مندی نہیں۔ اس جملے کا خیال رکھتے ہوئے ہم ان کی سیرت مبارکہ اور حالات زندگی میں سے تین واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ یہ دعا کرتے ہوئے کہ ہم سب کے لیے ان واقعات کو ہدایت کا ذریعہ بناد ے۔ آمین۔
پہلا واقعہ
اس واقعہ کو روایت کرنے والے آپ جانتے ہیں کون ہیں؟ یہ وہی مدینہ کے بڑے عالم اور مشہور قاضی اور قابل احترام بزرگ جناب سلمہ بن دینارؒ ہیں جو ابوحازم اعرج کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔
وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس گیا، وہ سرزمین شام کے مشہور شہر حلب کے معاملات کو نمٹانے میں انتہائی مصروف تھے، ان دنوں میں بھی بوڑھا ہو چکا تھا۔
میرے اور ان کے درمیان ملاقات کو کافی عرصہ گزر چکا تھا، میں نے انہیں اپنے گھر کے ایک کمرے میں بیٹھے دیکھا۔ میں انہیں پہچان نہ سکا، کیوں کہ میں نے بہت پہلے انہیں اس وقت دیکھا تھا جب وہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔
انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور فرمایا: ابوحازم میرے قریب بیٹھو! میں جب ان کے پاس قریب ہو کر بیٹھا تو میں نے سوال کیا: ’’کیا آپ امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز نہیں ہیں؟‘‘
فرمایا: ’’کیوں نہیں، میں وہی ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’آپ کو کیا ہوگیا (آپ تو بالکل پہچانے ہی نہیں جاتے، کس مصیبت میں گرفتار ہو گئے؟ جب آپ مدینہ منورہ میں تھے) اس وقت آپ کا چہرہ تروتازہ، جلد نرم و نازک اور زندگی کے لمحات نہایت خوش گوار گزر رہے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’اب سونے چاندی کے مالک بن کر، امیر المؤمنین کے اونچے عہدے پر فائز ہو کر آپ کو کس چیز نے بالکل بدل کر رکھ دیا؟‘‘
فرمایا: ’’ابوحازم! آپ کو مجھ میں کون سی تبدیلی نظر آرہی ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’آپ کا جسم کمزور اور جلد سخت ہو چکی ہے۔ آپ کے چہرے پر بل پڑچکے ہیں، رنگ زرد ہو چکا ہے، آنکھوں کی چمک ہلکی ہو چکی ہے۔‘‘
یہ باتیں سن کر آپؒ رو پڑے اور فرمایا: ’’اے ابو حازم! اس وقت کیسا محسوس کرو گے جب میری موت کے تین دن بعد تم مجھے اس حالت میں دیکھو کہ میری آنکھوں کے ڈھیلے بہہ کر میرے چہرے پر لٹک جائیں گے، میرا پیٹ پھول کر پھٹ جائے گا اور کیڑے میرے بدن کو نوچنے لگیں تو آپ کو میری اس وقت کی حالت آج کے مقابلے میں زیادہ عجیب و غریب دکھائی دے گی۔‘‘
پھر میری طرف دیکھا اور فرمایا: ’’اے ابوحازم! کیا حضور اقدسؐ کی وہ حدیث آپ کو یاد ہے جو مدینہ منورہ میں قیام کے دوران آپ نے مجھے سنائی تھی؟‘‘
میں نے کہا: ’’امیرالمؤمنین مدینہ منورہ میں قیام کے دوران تو بہت سی احادیث بیان کی تھیں۔ آپ کون سی حدیث سننا چاہتے ہیں؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’وہ حدیث جس کے راوی سیدنا ابوہریرہؓ ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں امیرالمؤمنین وہ حدیث مجھے یاد آگئی۔‘‘
فرمایا: ’’برائے مہربانی اسے دوبارہ بیان کیجئے، میں اسے آپ ہی سے سننے کا دلی شوق رکھتا ہوں۔‘‘ میں نے وہ حدیث بیان کی:
(ترجمہ) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اقدسؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انسان کے سامنے ایک کٹھن اور دشوار گزار گھاٹی ہے، جس کو ہر وہ آدمی عبور کر سکے گا، جو دبلا پتلا ہو۔
یہ سن کر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ بہت روئے، اتنا روئے کہ مجھے شک ہوا کہ کہیں اتنے زیادہ غم سے ان کا انتقال نہ ہو جائے۔ پھر آپ نے آنسو صاف کئے اور میری طرف دیکھا اور فرمایا: ’’اے ابوحازم! کیا اب بھی آپ مجھے اس بات پر افسوس دلاتے ہیں جب کہ میں نے یہ گھاٹی عبور کرنے کے لیے اپنے آپ کو دبلا پتلا کیا ہوا ہے، لیکن پھر بھی مجھے ڈر ہے کہ شاید میں نجات نہ پاسکوں گا اور امید بھی ہے کہ رب تعالیٰ فضل و کرم والا معاملہ فرمائیں گے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭