تثلیث سے توحید تک

حجاب کے ذریعے مجھے کسی ملک، رسم و رواج یا معاشرتی شناخت کا دفاع نہیں کرنا ہے۔ اس سے نہ تو میری سماجی اور نہ ہی سیاسی اہمیت بڑھتی ہے، بلکہ یہ صرف مذہبی عقیدے کا اظہار کرنا ہے۔
ان ایام میں جب کہ مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ میں اسلام قبول کروں یا نہ کروں، میں نے اپنے اندر سنجیدگی کے ساتھ روزانہ پانچ مطلوبہ عبادات ادا کرنے کی صلاحیت اور رجحان کا اندازہ نہیں لگایا تھا اور نہ ہی حجاب پہننے کے بارے میں سوچا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ میں اس بات سے خائف تھی کہ میرے مسلمان ہونے کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کیلئے میرے اندر منفی رجحان نہ پیدا ہو جائے۔ پیرس کی مسجد میں پہلی بار جانے سے قبل میں ایک ایسی دنیا میں رہتی تھی، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں نماز اور حجاب سے یکسر ناواقف تھی، پھر بھی میری خواہش اتنی شدید تھی کہ میں اس بات سے قطعاً پریشان نہ تھی، جس سے مذہب تبدیل کرنے کے بعد میرا سابقہ ہوتا۔ دراصل یہ امر قابل توجہ ہے، لیکن مجھ کو رب تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے اسلام کے لئے ہدایت نصیب ہوئی تھی۔
اگر چہ میں حجاب کی عادی نہ تھی، لیکن اپنا مذہب تبدیل کرنے کے بعد میں فوراً ہی اس کا فائدہ محسوس کرنے لگی۔ مسجد میں اتوار کے اسلامی لیکچر میں پہلی مرتبہ شامل ہونے کے چند دن بعد اگلے اتوار کو پہننے کے لیے میں نے اسکارف خریدا، مجھ سے کسی نے اسکارف پہننے کو نہیں کہا تھا۔ میں مسجد اور وہاں کی دوسری مسلم بہنوں کے احترام میں ایسا کرنا چاہتی تھی۔ میں اتوار کی آمد کے لیے بے قرار تھی، کیونکہ گزشتہ لیکچر نے مجھے ایک ایسے روحانی جذبے سے سرشار کیا تھا جس کا اس سے قبل مجھے کوئی تجربہ نہ تھا۔ میرے دل میں روحانیت کی پرورش کے لیے اتنی اشتہاء تھی کہ میں نے لیکچر کے ہر لفظ کو اس طرح جذب کر لیا جیسے خشک فوم پانی کو جذب کرتا ہے۔
دوسرے اتوار کو لیکچر روم میں جانے سے قبل میں نے وضو کیا اور اسکارف پہنا۔ لیکچر کے بعد میں پہلی بار نماز والے کمرے میں داخل ہوئی۔ میں نے دوسری بہنوں کے ساتھ نہایت خاموشی سے نماز ادا کی۔ مسجد میں گزارے ہوئے چند گھنٹوں نے مجھ کو اتنا مسرور اور مطمئن کر دیا تھا کہ وہاں سے نکلنے کے بعد بھی اس مسرت کو اپنے دل میں محفوظ کرنے کے لیے میں اسکارف پہنے رہی۔ چونکہ وہ سردیوں کا موسم تھا، اس لیے لوگوں کو میرا اسکارف اپنی طرف متوجہ نہ کرسکا۔ عوام میں یہ میرا حجاب کا پہلا مظاہرہ تھا اور مجھے اپنے اندر ایک فرق کا احساس ہوا۔ میں نے اپنے آپ کو پاکیزہ اور محفوظ سمجھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں رب تعالیٰ سے زیادہ قریب ہوگئی ہوں۔
دوسرے ملک میں ایک جاپانی عورت کی وجہ سے لوگ مجھ کو پبلک مقامات پر گھور کر دیکھتے تھے تو میں مضطرب ہو جاتی تھی۔ پھر بھی میں اپنے آپ کو حجاب کی وجہ سے محفوظ سمجھتی تھی۔ اب میں اپنے آپ کو غیر شائستہ نگاہوں کا مرکز نہیں سمجھتی تھی۔ اس کے بعد میں جب بھی باہر گئی تو حجاب میں گئی۔ یہ ایک ایسا بے ساختہ اور رضا کارانہ عمل تھا، جس کو کسی نے مجھ پر جبراً نہیں لادا تھا۔ اسلام سے متعلق پہلی کتاب جس کا میں نے مطالعہ کیا، اس میں حجاب کو معتدل انداز میں واضح کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ رب تعالیٰ اس کی پر زور نصیحت کرتا ہے۔ اگر کسی نے تحکمانہ لہجہ میں کہا ہوتا کہ جیسے ہی تم اسلام قبول کرو تو تم حجاب ضرور استعمال کرو۔ تو میں اس حکم کے خلاف ضرور بغاوت کر دینا چاہتی۔ اسلام کا مطلب ہے رب کی مرضی کے لیے سپردگی اور اس کے احکام کی اطاعت کے لیے سرِ تسلیم خم کرنا۔ مجھ جیسی ہستی کے لیے جس نے برسوں بغیر کسی مذہب کے زندگی گزاری تھی کسی حکم کی بلا شرط تعمیل کرنا بڑا مشکل کام تھا۔ لیکن رب تعالیٰ کے احکامات بغیر کسی غلطی کے ہیں اور صحیح اسلامی طریقہ انہیں بلاچون و چرا تسلیم کرنا اور نافذ کرنا ہے۔ یہ صرف انسانی فہم و ادراک ہے جس سے غلطی کا ارتکاب ہوتا ہے اور میں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اپنی قوت استدلال پر اعتماد رکھتی تھی اور کسی حاکم اعلیٰ کے وجود یا ضابطہ اخلاق کو تسلیم کرنے کی ضرورت سے متعلق مسلسل سوالات کیا کرتی تھی۔ بہر کیف میری زندگی کے اس موڑ پر میری خواہشات بے ساختہ طور پر رب تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگئیں۔خدا کا شکر کہ میں اسلامی فرائض کو بلا کسی جبر کے احساس کے ادا کرنے کے لائق ہوگئی تھی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment