سیدنا طفیل ؓ کو قدرتی نشانی ملی

حضرت طفیل بن عمرو الدوسیؓ فرماتے ہیں کہ میں مشرف بہ اسلام ہو کر جب اپنی قوم کے پاس پہنچا تو میرے والد محترم جو ضعیف العمر تھے، میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے ان سے کہا: ابا جان! آپ مجھ سے الگ ہی رہیں، کیونکہ اب میرا اور آپ کا رشتہ ایک نہیں رہا (میں مسلمان ہو گیا ہوں اور آپ مشرک ہیں۔)
میرے والد نے پوچھا: آخر کیوں میرے بیٹے؟!
میں نے بتایا: میں دائرئہ اسلام میں داخل ہو کر نبی کریمؐ کے پیروکاروں میں شامل ہو چکا ہوں۔
میرے والد نے کہا: بیٹے! میرا دین بھی تیرا ہی دین ہے۔ پھر انہوں نے کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔
اتنے میں میری بیوی آ گئی، میں نے اس سے بھی وہی کچھ کہا جو اپنے والد سے کہا تھا، چنانچہ وہ بھی دائرئہ اسلام میں داخل ہو گئی، پھر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس گیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی، مگر وہ ٹال مٹول کرنے اور مجھ سے اعراض کرنے لگے۔ میں فوراً مکہ مکرمہ پہنچ کر رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے رسولِؐ خدا! قبیلہ دوس کے لوگ میرے اوپر لہو و لعب کے ذریعے سے غالب آ گئے (اور میری دعوت قبول کرنے میں ٹال مٹول کرنے لگے) اس لیے آپؐ ان کے لیے بد دعا کر دیں۔
رسول اکرمؐ نے میری گفتگو سن کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور قبلہ رخ ہو گئے۔ میں نے دل میں کہا: اب دوس والے ہلاک ہو گئے، برباد ہو گئے، ان کی تباہی آ گئی، مگر رسول اکرمؐ نے یہ دعا فرمائی:
’’یا الٰہی! قبیلہ دوس کو ہدایت دے! یا الٰہی! دوس کو راہ راست پر لے آ! دوس کو سیدھے راستے پر گامزن فرما!‘‘
پھر آپؐ نے مجھے سے فرمایا:
’’اپنے قوم کے پاس واپس جائو، ان کو خدا تعالیٰ کی طرف دعوت دو اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئو۔‘‘
بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ قبیلہ دوس کے سردار سیدنا طفیل بن عمروؓ اور ان کے اصحاب خدمت نبویؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے رسول خدا! دوس کے لوگوں نے اسلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کے لیے خدا تعالیٰ سے بددعا کیجیے۔ اس پر وہاں موجود چند افراد نے کہا: اب تو دوس کے لوگوں کی ہلاکت یقینی ہے۔
رسول اکرمؐ نے اہل دوس کے لیے بجائے بددعا کرنے کے یہ دعا فرمائی: ’’یا الٰہی! دوس کے لوگوں کو ہدایت عطا فرما اور انہیں میرے پاس لے آ۔‘‘ (صحیح البخاری، حدیث: 2937، و صحیح مسلم، حدیث: 2524)
جی ہاں! یہ ہیں نبیٔ رحمتؐ جن سے بد دعا کی باضابطہ درخواست کی جاتی ہے، مگر اس کے بدلے آپؐ دعائیہ کلمات عنایت فرماتے ہیں اور یہ کیوں نہ ہو، جب کہ آپؐ انسانوں ہی کے لیے نہیں، بلکہ حیوانوں کے لیے بھی سراپا رحمت بن کر آئے تھے!! حق تعالیٰ نے آپؐ کی شفقت و مہربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’یقیناً تمہارے پاس ایسے رسول تشریف لائے ہیں، جو تمہی میں سے ہیں۔ ان کو تمہاری تکلیف کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، ایمان والوں پر بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔‘‘ (التوبۃ: 128/9)
صرف قبیلہ دوس کے لئے ہی آپؐ نے دعا نہیں فرمائی۔ جانی دشمنوں کو بھی دعا دینا آپؐ کے اخلاق کریمہ کا حصہ تھا۔ چنانچہ محاصرہ طائف کے دوران صحابہ کرامؓ نے رسول اکرمؐ سے عرض کیا کہ اے رسول خدا! ثقیف کے تیروں نے تو ہمیں سوختہ ساماں کر ڈالا ہے۔ ان کے خلاف خدا تعالیٰ سے بد دعا کیجیے۔
رسول اکرمؐ نے ثقیف کے لیے دعا فرمائی: ’’یا الٰہی! ثقیف کو ہدایت سے بہرہ یاب فرما۔‘‘
(مسند أحمد: 343/3۔ و مصنف ابن أبی شیبۃ: 413/6، حدیث: 32496) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment