وجیہ احمد صدیقی
باوثوق ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان سمجھوتہ ایکسپریس کے 44 پاکستانی شہدا کے معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے پر غور کر رہی ہے۔ اس حوالے سے عالمی قوانین کے ماہرین سے رابطہ کیا جائے گا۔ جبکہ دیگر عالمی فورمز پر بھی ایشو اٹھایا جائے گا۔ بیالیس پاکستانی شہریوں کو زندہ جلانے والے مجرموں میں آر ایس ایس کا دہشت گرد آسوامی آسیم نند بھی شامل ہے۔ پاکستان کی جانب سے آر ایس ایس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے اور اسے کالعدم قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 2016 میں بھی ہارٹ آف ایشیا میٹنگ کے موقع پر معاملہ اٹھایا گیا تھا۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے جب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ سے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ 27 مارچ کو کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے اور اس کے ایجنڈے پر بھارتی عدالت کا سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کو بری کرنے کا فیصلہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم حکومت سے پوچھیں گے کہ وہ اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ اگر حکومت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا تو ہم اسے تجویز دیں گے کہ وہ اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھائے۔ کیونکہ یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ ایک بین الاقوامی ٹرین پر بھارت میں حملہ ہوا ہے اور اس میں 68 مسافر مارے گئے، جن میں 44 پاکستانی شہری تھے۔ جن کی جانوں کا تحفظ کرنا بھارتی حکومت کی ذمہ داری تھی‘‘۔ ایک سوال پر ملک احسان اللہ ٹوانہ نے کہا کہ ماضی میں اس معاملے پر پرویز مشرف کی حکومت سمیت کسی سیاسی جماعت کی حکومت نے بھی دلچسپی نہیں لی تھی‘‘۔
دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق اس کیس میں انصاف کے تقاضے پورے ہی نہیں کیے گئے۔ پہلے ہی اس کیس کے مرکزی ملزم سوامی آسیم آنند ضمانت پر رہا کیا گیا تھا اور اب فیصلے میں اسے بری کر دیا گیا۔ جبکہ سابق بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو بم دھماکے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ تحقیقات میں اُس وقت کے حاضر سروس بھارتی کرنل پروہت، میجر اپادھیا، انتہا پسند ہندو رہنما سوامی آسیم آنند اور کمل چوہان دھماکے میں ملوث پائے گئے۔ یہ وہی کرنل پروہت ہے، جس نے ہیمنت کمار کرکرے کو ممبئی کے حملے کا ڈارمہ رچاکے قتل کردیا تھا۔ ایک بھارتی میگزین کو دیئے گئے انٹرویو میں مرکزی ملزم سوامی آسیم آنند نے سمجھوتہ دھماکوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ٹرین سروس سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ کرکے اسے آگ لگانے اور دہلی و مالیگائوں بم دھماکوں کے حوالے سے دہشت گردی کی بہیمانہ وارداتوں کا ملبہ بھی بھارتی ریاستی اداروں نے پاکستانی تنظیموں اور ریاستی تنظیم ISI پر ہی ڈالا تھا۔ لیکن اِن دونوں وارداتوں میں خاص طور پر سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگائوں دھماکوں میں بھارتی انسداد دہشت گردی کی ٹیم کے دو باضمیر افسروں ہیمنت کرکرے اور سالسکر کی غیرجانبدارانہ تفتیش کے دوران جو حقائق سامنے آئے، وہ انتہائی حیران کن تھے۔ جس سے یہ بات ظاہر ہو گئی تھی کہ دہشت گردی کے اِن واقعات میں بھارتی انتہا پسند، ہندو توا، بھارتی فوج کے چند متعصب افسران بشمول ریٹائرڈ کرنل پروہت ملوث ہیں۔ اس انکشاف کے بعد ان انتہاپسند ہندو دہشت گردوں سے برداشت نہیں ہوا اور ممبئی دہشت گردی کے دوران پراسرار طور پر اِن باضمیر بھارتی افسران کو بھی قتل کر دیا گیا، جن کی تفتیش نے اصل مجرموں کی نشاندہی کی تھی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ماضی میں اس مقدمے میں دلچسپی رسمی سی تھی۔
سمجھوتہ ایکسپریس کے طویل مقدمے میں تقریباً 300 گواہ تھے۔ گزشتہ دو برس میں 30 سے زیادہ گواہ منحرف ہوچکے۔ سماعت کے دوران درجنوں سرکاری گواہ بھی منحرف ہوگئے۔ جبکہ عدالت کی جانب سے جن 13 پاکستانی گواہوں کو پاکستان ہائی کمیشن کے ذریعے سمن بھیجا گیا، انہیں پاکستان میں موجود بھارتی ہائی کمیشن نے ہر مرتبہ ویزا دینے سے انکار کیا۔ سوامی اسیم آنند سمجھوتہ ایکسپریس کے علاوہ مکہ مسجد اور اجمیر درگاہ سمیت بعض دیگر دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی ملزم تھا۔ لیکن اسے ان سب میں بری کردیا گیا۔ اب سمجھوتہ ایکسپریس کے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود اسے عدالت نے بھی بری کردیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں عینی شاہد کے طور پر گواہی دینے کے لیے پاکستانی خاتون راحیلہ وکیل کو بھارتی سفارتخانے نے ہر مرتبہ ویزا دینے سے انکارکیا۔ تازہ انکار 13مارچ کو کیا گیا۔ خاتون کا دعویٰ ہے کہ ان کے والد زندہ اور بھارتی جیل میں قید ہیں۔ ذرائع کے مطابق حافظ آباد کے نواحی علاقے کی رہائشی خاتون راحیلہ وکیل گزشتہ 12 سال سے اپنے والد کی تلاش میں ہے۔ 10 فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین حادثے میں مرنے والے 68 افراد میں اس کے والد محمد وکیل کا نام بھی شامل تھا۔ بھارتی حکومت نے اس خاندان کے دو افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی تھی۔ راحیلہ وکیل کے خاندان کو بتایا گیا تھا کہ ان کے والد ٹرین سانحہ میں جاں بحق ہوگئے اور ان کی لاش کا نمبر 38 بتایا گیا۔ لیکن جب محمد وکیل کے خاندان نے اپنے وکیل کے توسط سے اس لاش کا ڈی این اے کروایا تو وہ منفی نکلا۔ ڈی این اے کے بعد ان کے خاندان کو تشویش ہوئی اور انہوں نے محمد وکیل کی تلاش شروع کردی۔ لیکن آج تک ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ راحیلہ وکیل کے خاندان کے رابطہ کرنے پر بھارتی حکومت نے تسلیم کرلیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں جاں بحق ہونے والوں میں ان کے والد شامل نہیں تھے۔ وہ اس روز ٹرین میں سوار ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس تصدیق کے بعد ان کے خاندان نے بھارتی وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور پولیس حکام کو متعدد خطوط لکھے۔ تاہم ہرطرف سے یہی جواب ملا کہ ان کے والد بھارت کی کسی بھی جیل میں نہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے اس حادثے میں مرنے والوں کے ورثا کو 10 لاکھ روپے فی کس معاوضہ دیا گیا تھا۔ وہ رقم ابھی تک بھارتی سفارتخانے کے پاس محفوظ ہے اور اس خاندان کو نہیں دی گئی۔ کیونکہ ان کے پاس محمد وکیل کی موت کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں اور نہ ہی زندہ ہونے کا کوئی ثبوت موجود ہے۔ 14 جون 2010ء کو بھارت کی انٹیلی جنس بیورو نے تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ان کے والد کسی جیل میں قید نہیں۔ راحیلہ وکیل بھارت کی عدالت میں پیش ہوکر یہ پوچھنا چاہتی تھیں کہ ان کے والد کہاں ہیں؟ لیکن بھارتی ہائی کمیشن نے ہر مرتبہ ان کے ویزے کی درخواست مسترد کی ہے۔ واضح رہے کہ راحیلہ وکیل کی والدہ ہاشرون بی بی بھارتی شہری ہیں اور انہوں نے 1984ء میں پاکستانی محمد وکیل سے شادی کی تھی۔ یہ خاندان اس وقت اپنے ننھیال گیا ہوا تھا، جب سمجھوتہ ایکسپریس کا حادثہ ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭