امریکی ویب سائٹ نے ٹارنٹ کو یہودی النسل قرار دیدیا

امت رپورٹ
ایک معروف امریکی ویب سائٹ ’’ویٹرنز ٹوڈے‘‘ نے کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹارنٹ کو یہودی النسل قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ سفاک دہشت گرد کے بارے میں اب تک مغربی میڈیا میں جو کہانیاں بیان کی جارہی ہیں، وہ سب جھوٹی ہیں۔ اپنے معتبر ذرائع کے دعوے کے ساتھ اصل کہانی بیان کرتے ہوئے ویب سائٹ کے چیئرمین اور سینئر ایڈیٹر گورڈن ڈف نے دعویٰ کیا ہے کہ نیوزی لینڈ میں دہشت گرد کارروائی اسرائیلی اسپانسرڈ تھی۔ جبکہ حملہ آور برینٹن ٹارنٹ کو اسرائیل میں ’’فری میسن‘‘ نے تربیت دی۔
’’ویٹرنز ٹوڈے‘‘ کو مغرب ایک پروپیگنڈہ اور سازشی تھیوری والی ویب سائٹ قرار دیتا ہے۔ تاہم ’’ویٹرنز ٹوڈے‘‘ کے مالکان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی ویب سائٹ کو ’’ملٹری ویٹرنز فارن افیئرز جرنل‘‘ کے طور پر متعارف کرا رکھا ہے ۔ ادھر معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے سانحہ نیوزی لینڈ کے حوالے سے ’’ویٹرنز ٹوڈے‘‘ کی اسٹوری سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں اٹھائے گئے بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔
کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر حملہ کر کے پچاس نمازیوں کو شہید کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹارنٹ کے بارے میں امریکی ویب سائٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ اسٹوری 1948ء سے شروع ہوتی ہے۔ جب ایک مفلس یہودی فیملی فلسطین سے برطانیہ، وہاں سے نیوزی لینڈ پہنچتی ہے اور بعد ازاں آسٹریلیا میں قیام پذیر ہوجاتی ہے۔ فلسطین سے برطانیہ کے بعد نیوزی لینڈ پہنچنے پر ٹارنٹ کی فیملی وہاں 11 برس گزارتی ہے۔ جس کے بعد مستقل طور پر آسٹریلیا میں قیام کرلیتی ہے۔ 1970ء میں اس یہودی فیملی کو آسٹریلوی شہریت ملتی ہے۔ جس کے چھ برس بعد ان کے ہاں ایک بیٹا جنم لیتا ہے، جس کا نام برینٹن ٹارنٹ رکھا جاتا ہے۔ اور یہ کہ جسے 28 سالہ قرار دیا جارہا ہے، وہ دراصل 42 برس کا ’’لڑکا‘‘ ہے۔ برینٹن ٹارنٹ کا باپ روڈنی ٹارنٹ 2010ء میں کینسر کا شکار ہوکر مرجاتا ہے۔ یوں ہولوکاسٹ سروائیور (ہولو کاسٹ سے بچ جانے والے) کے طور پر ٹارنٹ فیملی کو وراثت میں ملنے والی ایک بڑی رقم کا ایک حصہ برینٹن کے حصے میں بھی آتا ہے۔ بعد ازاں اسی رقم کے ذریعے برینٹن ٹارنٹ دنیا بھر کا دورہ کرتا ہے۔ ان ممالک میں اسرائیل بھی شامل ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اسرائیلی اخبار ’’دی ٹائمز آف اسرائیل‘‘ نے اسرائیلی امیگریشن کے ایک سینئر افسر کا حوالہ دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ برینٹن ٹارنٹ 25 اکتوبر 2016ء کو اپنے آسٹریلین پاسپورٹ پر ترکی سے اسرائیل پہنچا تھا۔ ٹارنٹ نے اگرچہ نوّے روز کا ٹورسٹ ویزا حاصل کیا تھا۔ تاہم وہ محض نو دن بعد وہاں سے روانہ ہوگیا۔
لیکن ’’ویٹرنز ٹوڈے‘‘ کا دعویٰ ہے کہ برینٹن ٹارنٹ نے 2017ء اور 2018ء میں دو بار اسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں چھ ماہ گزارے۔ اسرائیل میں قیام کے دوران برینٹن ٹارنٹ کو فری میسن کیمپ میں تربیت دی گئی اور بالکل ویسی سہولیات فراہم کی گئیں، جو قبل ازیں ناروے میں 77 افراد کو قتل کرنے والے دہشت گرد اینڈرس بریوک کو دی گئی تھیں۔ کیونکہ اینڈرس بریوک کی دہشت گرد کارروائی بھی اسرائیل نے اسپانسرڈ کی تھی۔ ویب سائٹ کے مطابق برینٹن ٹارنٹ نے جس پلاننگ گروپ کے ساتھ دنیا بھر کا دورہ کیا، اس میں چار خواتین شامل تھیں اور وہ اس وقت بھی نیوزی لینڈ میں موجود ہیں۔ ٹارنٹ کو اسرائیل نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ قتل عام کے بعد اسے آزاد کرالیا جائے گا۔ ٹارنٹ کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں سے کسی ایک ملک میں کارروائی کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ بعد ازاں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کا انتخاب کیا گیا۔ نیوزی لینڈ نے 2007ء میں اور آسٹریلیا نے 2005ء میں سزائے موت کا قانون ختم کردیا تھا۔
امریکی ویب سائٹ کے مطابق ٹارنٹ نے کرائسٹ چرچ کی النور مسجد پر سترہ منٹ چار سیکنڈ تک فائرنگ کی۔ لیکن اس طویل عرصے کے دوران پولیس وہاں نہیں پہنچی۔ حالانکہ النور مسجد سے پولیس اسٹیشن صرف ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ کیونکہ مقامی پولیس کے بڑے ذمہ داران اس سارے پلان کا حصہ تھے۔ برینٹن ٹارنٹ نے جو اسلحہ استعمال کیا اور گولیاں چلائیں، وہ بھی اسرائیلی ساختہ تھیں۔
معروف عسکری تجزیہ نگار آصف ہارون کا کہنا ہے کہ امریکی ویب سائٹ کی رپورٹ میں اٹھائے گئے بہت سے سوالات valid ہیں۔ نیوزی لینڈ کو دنیا کا محفوظ ترین ملک اسی لئے قرار دیا جاتا ہے کہ وہاں کا پولسنگ سسٹم بہت مضبوط ہے۔ اس کے باوجود قریب ترین پولیس اسٹیشن ہونے کے، پولیس کا جائے وقوعہ پر بروقت نہ پہنچنا حیران کن ہے۔ حالانکہ اس دوران مسجد کے باتھ روم میں موجود ایک نمازی مسلسل اپنے موبائل فون سے پولیس کو واقعہ کی تفصیل بتارہا تھا۔ آصف ہارون کے بقول جس طرح واقعہ کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن نے معاملے کو سنبھالا اور مسلم کمیونٹی کے زخموں پر مرہم رکھا، وہ قابل تعریف ہے۔ لیکن یہ خارج از امکان نہیں کہ حکومت کی لاعلمیت میں مقامی پولیس کے بعض ذمہ داران حملہ آور کے ساتھ ملے ہوئے ہوں۔ اور انہیں حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے خرید لیا ہو۔ کیونکہ ہر ملک میں پاور سینٹرز ہوتے ہیں۔ جیسا کہ امریکہ میں پینٹا گون، سی آئی اے اور سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیں۔ جو بیشتر ایشوز پر ایک دوسرے کے مخالف چلتے ہیں۔ آصف ہارون کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کی کارروائی کراکے اسرائیل نے ایک تیر سے دو شکار کھیلے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یورپ میں عیسائی اور مسلمان کمیونٹی کو آپس میں لڑانا ہے۔ کیونکہ یورپ میں مسلمان بہت طاقتور ہورہا ہے۔ بہت سے ممالک کی قانون سازی میں بھی اب تارکین وطن مسلمانوں کا بڑا عمل دخل ہوگیا ہے۔ یہ چیز یہودی لابی کو برداشت نہیں۔ اس کے لئے اسرائیل سفید فام بالادستی اور نسلی قوم پرستی کی حامی فار، رائٹ تنظیموں کو سپورٹ کر رہا ہے ۔ قبل ازیں وہ مسلمان کے ذریعے مسلمان کو مروا رہا تھا۔ یورپ میں اس وقت فار، رائٹ کا ’’فنومنا‘‘ تیزی سے سامنے آرہا ہے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سفید فام تنظیمیں بہت مضبوط ہوگئی ہیں۔ جبکہ یورپ میں بائیں بازو کی قوتیں ان تنظیموں کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔ آج سے دس برس بعد یورپ میں صورتحال بہت مختلف ہوگی۔ اس تناظر میں وہاں بسنے والے مسلمان خطرے میں ہیں۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ آصف ہارون کے بقول برینٹن ٹارنٹ نے دو برس کا عرصہ اسرائیل، شام اور ترکی میں گزارا۔ بالخصوص اسرائیل اور شام میں داعش کے ساتھ مختلف کیمپوں میں اس کی تربیت کی گئی۔ اسی پیریڈ کے دوران ٹارنٹ کی برین واشنگ بھی کی گئی اور اس کے ذہن میں زہر بھر دیا گیا۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ برینٹن واجبی سی تعلیم رکھتا ہے۔ کوئی دانشور یا پی ایچ ڈی اسکالر نہیں۔ اس کے باوجود اس نے 74 صفحات پر مبنی اتنا ثقیل منشور کیسے لکھ دیا؟ ظاہر ہے کہ یہ اسے منصوبہ سازوں نے لکھ کے دیا ہوگا۔ آصف ہارون کے مطابق اسرائیل نے کرائسٹ چرچ میں کارروائی کراکر جو دوسرا مقصد حاصل کیا، وہ نیوزی لینڈ کو سبق سکھانے سے متعلق ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سمیت فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق جو قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کی گئی تھی۔ اس قرارداد کی کیوی وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن نے نہ صرف بھرپور سپورٹ کی تھی، بلکہ وہ اس قرارداد کی، کو اسپانسر بھی تھیں۔ اس سے ایک روز پہلے اسرائیل نے نیوزی لینڈ کو وارننگ دی تھی اور قرارداد کی سپورٹ سے منع کیا تھا۔ لیکن کیوی وزیراعظم نے انکار کردیا۔ جس پر اسرائیلی حکومت نے باقاعدہ طور پر نیوزی لینڈ حکومت کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی تھی۔ اس قرارداد کی حمایت کے کچھ عرصے بعد نیوزی لینڈ جیسے مثالی پرامن ملک میں دہشت گردی کی اتنی بڑی کارروائی ہوگئی، جس نے پوری حکومت کو ہلاکر رکھ دیا۔ آصف ہارون کے بقول اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف جب بھی کسی یورپی ملک نے آواز اٹھائی، اس کی پالیسیوں پر تنقید کی یا ہولوکاسٹ کے ایشو کو چھیڑا تو اسرائیلی حکومت اور موساد نے اسے لازمی سبق سکھانے کی کوشش کی۔ اس کی تازہ مثال فرانس ہے۔ اسرائیلی وارننگ کے باوجود فرانس نے بھی فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری سے متعلق پالیسی پر کڑی تنقید کی تھی۔ اس کے نتیجے میں فرانس میں Yellow vests movement (یلو ویسٹ موومنٹ) شروع کرادی گئی، جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اس تحریک نے فرانس کی حکومت کو ہلادیا ہے۔ مظاہرین پر قابو نہ پانے پر پولیس سربراہ برطرف کیا جاچکا ہے اور اب فوج بلانے کی تیاری کی جارہی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment