سرفروش

عباس ثاقب
میں اس خوشگوار تبدیلی کا سبب سمجھنے سے کم از کم اس وقت قاصر تھا اور اس معاملے پر زیادہ توجہ دینے کے لیے وہ موقع زیادہ مناسب بھی نہیں تھا۔ لہٰذا میں نے زیادہ سنجیدہ پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جمیلہ کو مخاطب کیا۔ ’’محترمہ، مجھے پتا ہے یہ درخواست تمہیں ناگوار گزرے گی، لیکن مجبوری ہے۔ براہ مہربانی اپنا پستول ایک دو دن کے لیے ادھار دے دو۔ امید ہے کہ پرسوں تک وہ پوری گولیوں سمیت تمہیں واپس لوٹا دیا جائے گا!‘‘۔
مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی اور ساتھ ساتھ ہنسی بھی آئی کہ میری طرف مزاحیہ لہجہ اختیار کیے جانے کے باوجود بات کا مفہوم سمجھ آنے پر جمیلہ کی پیشانی پر چند لمحوں کے لیے ناگواری کی لکیریں نمودار ہوئی ہیں۔ مجھے لگا کہ کہیں وہ لا ابالی لڑکی صاف انکار نہ کر دے۔ لیکن اس نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا اور شرارتی لہجے میں کہا۔ ’’میرے پستول کی طبیعت کچھ ناساز ہے۔ لیکن اگر آپ اسے طلب کرنے کا معقول مقصد بتاسکیں تو میں اسے حاضر کرنے پر تیار ہوں‘‘۔
میں نے مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ ’’فکر نہ کرو۔ مجھے ایسے کاہلی میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنا آتا ہے۔ تمہارے پستول کو آب و ہوا کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ امرتسرکا چکر لگا کر واپس آئے گا تو ایک دم ہشاش بشاش ہو چکا ہوگا!‘‘۔
جمیلہ کے علاوہ بھی تینوں افراد میری بات سمجھ گئے تھے۔ یاسر نے پُر جوش لہجے میں کہا۔ ’’مجھے پستول چلانا آتا ہے۔ اچھی خاصی مشق بھی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن مجھے خدشہ ہے کہ راستے میں آپ کی تلاشی لی جا سکتی ہے۔ لیکن خاتون کو عموماً زحمت نہیں دی جاتی۔ لہٰذا یہ پستول احتیاطاً رخسانہ کی تحویل میں رکھنا ہوگا۔ تاہم خدانخواستہ ضرورت پڑنے پر آپ چند لمحوں میں اسے حاصل کر کے استعمال کر سکتے ہیں‘‘۔
یہ سن کر رخسانہ نے جوش اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا۔ ’’مجھے جمیلہ جتنی مشق و مہارت تو نہیں۔ لیکن میں نے اس سے پستول چلانا سیکھ لیا ہے۔ اور میرا خیال ہے میں ضرورت پڑنے پر اس سے کسی کا کام تمام بھی کر سکتی ہوں‘‘۔
جمیلہ نے جھٹ اس کی تائید کی۔ ’’بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ بلکہ پستول پر ان کی گرفت مجھ سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ نشانہ سادھتے ہوئے ذرا بھی ہاتھ نہیں کپکپاتا۔ لگتا ہے پچھلے جنم میں کرائے کی قاتل…‘‘۔
رخسانہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’قاتل نہیں مجاہد…۔ پستول پر میری گرفت اس لیے مضبوط ہوتی ہے کہ میرے ذہن میں مٹھو سنگھ، مانک اور شیامک کے چہرے آجاتے ہیں۔ یقین کرو۔ اگر موقع آیا تو میرا نشانہ چُوکے گا نہیں!‘‘۔
اس کے لہجے میں فولاد کی سی مضبوطی تھی۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ ’’شاباش۔ ظالم کے خلاف ہر مظلوم کا ارادہ اتنا ہی پختہ ہونا چاہیے۔ اور تم تو کشمیر کی بیٹی ہو اور تمہاری قوم کو آزادی کا جانے کتنا طویل سفر درپیش ہے۔ نازک مزاجی تمہیں زیبا بھی نہیں ہے!‘‘۔
میرے الفاظ نے ماحول کو جذباتی طور پر بوجھل کر دیا۔ میں نے ماحول بدلنے کے لیے رخسانہ اور جمیلہ کو مخاطب کیا۔ ’’تم لوگ تو کل روغن جوش کھلانے والی تھیں۔ یہ اچانک آج ہی کیسے سب کچھ تیار کرلیا؟‘‘۔
رخسانہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’آپ نے بتایا تھا ناں کہ ہمیں کل صبح ہی امرتسر روانہ ہونا ہے۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ ابھی ہمارے پاس کچھ وقت ہے۔ کیوں نہ رات کے کھانے میں ہی آپ کی تواضع کر دی جائے۔ خالہ نے جانے کہاں سے بکرے کے تازہ گوشت کا بندوبست کر دیا تو ہم کسی نہ کسی طرح بروقت کھانے تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’چلو اچھا ہوا۔ اسی بہانے یاسر بھائی نے بھی تم لوگوں کی طباخی کا مظاہرہ دیکھ لیا‘‘۔
یاسر نے کہا۔ ’’میں بتا نہیں سکتا کتنا مزہ آیا۔ خالہ بہت اچھا کھانا بناتی ہیں۔ لیکن آپ کے ہاتھوں میں بھی زبردست ذائقہ ہے‘‘۔
میں نے دیکھا جمیلہ کوئی مچلتا شرارتی جملہ کسنے کی تیاری کر رہی ہے۔ جس کا ہدف یقینی طور پر یاسر اور رخسانہ کا ڈھکا چھپا، کچا پکا دلی تعلق ہوتا، اور وہ دونوں شرمسار ہوکر غیر محسوس انداز میں ایک دوسرے کی طرف مائل ہوتے ہوتے ایک بار پھر اپنے اپنے خول میں سمٹ جاتے۔ لہٰذا میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے باز رہنے کا انتباہ کیا اور خوش قسمتی سے اس تیز دماغ لڑکی نے میرا پیغام بروقت سمجھ اورمان بھی لیا۔ البتہ وہ چٹکی لینے سے پھر بھی باز نہ آئی۔ ’’یاسر بھائی۔ آپ کو ہمارے دل کی پکار کھینچ کر یہاں لائی ہے۔ آپ کے بغیر ہمارا مزہ بھی ادھورا رہتا‘‘۔
اس نے ’’ہمارا‘‘ پر خاص زور دیا تھا۔ لیکن سب نے تجاہل عارفانہ سے کام لینا مناسب سمجھا اور ردِ عمل رخسانہ کے چہرے پر حیا کی سرخی تک محدود رہا۔
طے یہ پایا کہ ناصر احتیاطاً علی الصباح موٹر سائیکل پر قصبہ فتح گڑھ صاحب جاکر امرتسر جانے والی پہلی بس کے دو ٹکٹ خرید لائے گا اور یاسر اور رخسانہ کی جوڑی منڈی گوبند گڑھ کے قریب سے گزرنے والی جی ٹی روڈ سے بس میں سوار ہوجائے گی۔
صبح چھے بجے کے قریب حسبِ پروگرام ناصر منڈی گوبند گڑھ سے لگ بھگ سات میل پہلے واقع فتح گڑھ صاحب روانہ ہوگیا۔ جبکہ یاسر اور رخسانہ رخصت ہونے کی تیاری کرنے لگے۔ ناصر بمشکل ایک گھنٹے میں واپس لوٹ آیا۔ بس کے دو ٹکٹ اس کے پاس تھے۔ جو آٹھ بجے کے قریب منڈی گوبند گڑھ کے پاس سے گزرنے والی تھی۔ کچھ وقت رہتا تھا کہ ناصر انہیں چھوڑ آیا ۔
یاسر اور رخسانہ کو اگلے روز دوپہر یا سہ پہر تک، یا زیادہ سے زیادہ اگلے روز صبح تک واپس لوٹ آنا تھا۔ جبکہ انہیں صورتِ حال کے مطابق اپنے پروگرام میں کسی مناسب تبدیلی کی اجازت تھی۔ تاہم ان کی روانگی کے ساتھ ہی ان کے اضطراب انگیز انتظار نے مجھے گھیر لیا۔ اپنے طے کردہ لائحہ عمل سے خاصی حد تک مطمئن ہونے کے باوجود طرح طرح کے اندیشے میرے دل میں کلبلارہے تھے۔ لاکھ باہمت سہی۔ اس طرح کے خطرناک معاملے سے نمٹنے کا انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment