عظمت علی رحمانی
لبرل و قادیانی لابی اسلام قبول کرنے کی اوسط عمر 18 سال کو قانونی شکل دینے کیلئے دوبارہ سرگرم ہوگئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے دسمبر 2016ء میں یہ بل سندھ اسمبلی میں منظور کیا تھا۔ جس کو اس وقت کے گورنر سندھ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے اعتراض لگا کر واپس کر دیا تھا۔ دوسری جانب اس بار وزیر اعظم کی جانب سے بھی مذکورہ قانون سازی کا اشارہ دیا گیا ہے۔ ادھر علمائے کرام نے لبرل و قادیانی لابی کی تازہ کوششوں کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دے دیا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل گھوٹکی کے شہر ڈھرکی میں دو ہندو بہنوں کے قبول اسلام کا معاملہ نیا رخ اختیار کرگیا ہے۔ ڈھرکی سے تعلق رکھنے والی دو ہندو بہنوں نے درگاہ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف میں جاکر میاں جاوید اقبال مٹھو کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور ان سے سرٹیفکیٹ لے کر چلی گئیں۔ جس کے بعد دونوں لڑکیوں نے بہاولپور کی عدالت میں تحفظ کیلئے درخواست دائر کردی۔ ادھر سندھ پولیس کے مطابق ڈھرکی تھانے میں دونوں لڑکیوں کے اغوا کا مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ جبکہ دونوں بہنوں نے میڈیا کے سامنے اپنی مرضی سے نکاح کا اعتراف کیا تھا۔ خان پور میں پولیس نے ایک شخص کو حراست میں بھی لیا ہے، جس پر الزام ہے کہ اس نے مبینہ طور لڑکیوں کا نکاح کرانے میں مدد کی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو دونوں بہنوں کی بازیابی اور معاملے پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ دوسری جانب بھارتی وزیر سشما سوراج نے بذریعہ ٹوئٹ بھارتی ہائی کمیشن سے معاملے کی رپورٹ طلب کی تو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے انہیں بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مودی کا بھارت نہیں، جہاں اقلیتوں سے نارواسلوک کیا جاتا ہے۔ یہ عمران خان کا نیا پاکستان ہے، یہاں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔
ادھر اس واقعہ کو لے کر ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے بعض وزرا نے بحث شروع کردی ہے کہ پیپلز پارٹی نے دسمبر 2016ء میں اقلیتوں کے مذہب تبدیل کرنے کی عمر کو 18سال تک پابند رکھنے کیلئے قانون سازی کی کوشش کی تھی۔ جس کیلئے بل بھی صوبائی اسمبلی سے منظور کرالیا گیا تھا۔ جس کو باقاعدہ قانون سازی کیلئے اس وقت کے گورنر سندھ چیف جسٹس ریٹائرڈ سعیدالزمان صدیقی کے پاس بھیجا گیا تھا۔ اس دوران ملک بھر میں علمائے کرام نے بھر پور مہم چلائی جس کے بعد جسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی نے علمائے کرام کے بھرپور مطالبے پر اس بل پر دستخظ کرنے کے بجائے اس پر اعتراض لگا کر واپس کردیا تھا۔ واضح رہے کہ اس بل کو رکوانے کیلئے مفتی تقی عثمانی نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے بعض وزرا اس بل کو منظور کرانے کے بعد قانون سازی کرانے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا پر لبرل اور قادیانی لابی اس کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ تحریکِ انصاف کے رکن قومی اسمبلی اورپاکستان ہندو کونسل کے سربراہ رمیش کمار واکوانی کا کہنا ہے کہ مذہب کی جبری تبدیلی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مذہب کی جبری تبدیلی کو روکنے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے وزیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں ان کی جماعت نے زبردستی مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے بل منظور کیا، لیکن اس وقت کے گورنر سعید الزمان صدیقی نے اس پر اعتراض لگا کر واپس بجھوا دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ میں قانونی طور پر 18 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کی اجازت نہیں، اسی وجہ سے ملزمان بچیوں کو پنجاب لے گئے ہیں۔
معلوم رہے کہ قادیانی اور لادین لبرل لابی کی جانب سے نو مسلم بہنوں کو زبردستی مسلمان کرنے کا پروپیگنڈا بھارتی موقف کو مضبوط بنا رہا ہے۔ جس سے پاکستان کو سفارتی محاذ پر کمزور بھی کیا جارہا ہے۔ ادھر بعض سندھی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے الزامات لگائے گئے ہیں کہ ضلع گھوٹکی کی درگاہ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف میں ہندو لڑکیوں کا مذہب جبری تبدیل کرایا جاتا ہے۔
دوسری جانب علمائے کرا م نے وزیر اعظم عمران خان کے موقف کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ادارہ تعلیم القرآن و سنہ کے مہتمم مفتی شبیر احمد عثمانی کا کہنا تھا کہ ’’عمران خان کا بیان لغو ہے۔ کسی کو بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہونے والوں کو واپس ہندوئوں کے حوالے کردے۔ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان نو مسلم بہنوں کی حفاظت کریں۔ علمائے کرام کا فتویٰ ہے کہ نو مسلم خواتین و حضرات کی ولایت کا حق مسلمانوں کے ذمہ ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ اب وہ ان نو مسلم لڑکیوں کی ولایت کا حق ادا کریں اور ان کی جان و ایمان کی حفاظت کریں۔ مسلمان ہونے کے بعد انہیں ان کے گھر والوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان کے گھر والوں کا حق ولایت ختم ہو گیا ہے۔ اگر پاکستان کے وزیر اعظم اس بات پر مصر ہیں تو تمام علمائے کرام سے عمرا ن خان کے اس فیصلے کے خلاف فتوی لیا جائے گا اور بھر پور تحریک چلائی جائے گی‘‘۔
جامعہ الصفہ بلدیہ ٹاؤن کے نائب مہتمم مفتی محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ’’کسی جزوی واقعہ کی آڑ میں 18 سال سے کم عمر کے قبول اسلام پر قدغن لگانے کی قانوناً و شرعاً کوئی گنجائش نہیں۔ قبول اسلام کی آزادی، دین اور آئین پاکستان کا بنیادی تقاضا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بچپن ہی میں اسلام قبول کیا تھا۔ مملکت خداداد پاکستان کو کلمہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، جس میں کلمہ پر پابندی کسی بھی طور قبول نہیں ہے‘‘۔
جمعیت علمائے اسلام سندھ کے سیکریٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو کا کہنا تھا کہ ’’اسلامی قوانین کو چھیڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ حکمران پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں اور اسی سوچ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ غیر مسلم اور مسلم دونوں گھرانوں کی بچیاں والدین کی مرضی کے بغیر شادی کرنے کیلئے گھروں سے بھاگ جاتی ہیں۔ اگر کوئی بھی غیر مسلم بچی اسلام قبول کرکے شادی کرنا چاہتی ہے تو اس کو یہ بنیاد بنا کر براہ راست اسلامی قوانین کے خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں پورے ملک میں گھروں سے بھاگنے پر ریسرچ کی جائے اور اس کے سد باب کیلئے قانون سازی کی جائے۔ ہم اس کا ساتھ دیں گے مگر کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ کسی ایک واقعہ کی آڑ میں کوئی ایسا قانون بنائے جو اسلام سے متصادم ہو‘‘۔٭
٭٭٭٭٭