شہید پولیس اہلکار پارٹ ٹائم میں پنکچر شاپ چلاتا تھا

معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں شہید ہونے والا پولیس اہلکار محمد فاروق پارٹ ٹائم میں ٹائر پنکچر کی دکان چلاتا تھا۔ 18 افراد کا واحد کفیل، مفتی تقی عثمانی سے بے انتہا عقیدت رکھتا تھا۔ فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان قربان کرنے والے شہید محمد فاروق نے کم تنخواہ کا شکوا کرنے والے پولیس اہلکاروں کیلئے روشن مثال قائم کی ہے کہ ’’اوپر کی کمائی‘‘ کے بجائے محنت کر کے اضافی آمدنی کی سبیل کی جا سکتی ہے۔ شہید کے سات بچوں میں سے 3 بچے نابینا ہیں۔ محمد فاروق کی نماز جنازہ مفتی تقی عثمانی نے پڑھائی اور تدفین دارالعلوم کراچی کے احاطے کے قبرستان میں کی گئی۔
جمعہ کے روز گلشن اقبال نیپا چورنگی کے قریب مفتی تقی عثمانی پر کئے جانے والے دہشت گردوں کے حملے میں پولیس اہلکار محمد فاروق شہید ہو گیا تھا۔ مذکورہ اہلکار اس کار میں ڈرائیور سرفراز کے ساتھ موجود تھا، جس میں مفتی تقی عثمانی، ان کی اہلیہ، پوتی اور پوتا موجود تھے۔ محمد فاروق کو تین اطراف سے گولیاں لگی تھیں۔ تاہم زخمی ڈرائیور حاضر دماغی سے کار نکال کر لیاقت نیشنل اسپتال لے گیا تھا۔ شہید محمد فاروق کراچی کے علاقے کورنگی کا رہائشی تھا۔ ہفتے کے روز اس کی نماز جنازہ میں سندھ حکومت کے وزرا، سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے رہنما، رشتے دار، علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد اور دارالعلوم کے علمائے کرام اور طلبا بھی شامل تھے۔
شہید پولیس اہلکار محمد فاروق باغ کورنگی کا رہائشی تھا اور ڈھائی سال سے مفتی تقی عثمانی کی سیکورٹی پر مامور تھا۔ اس کا تعلق سیکورٹی زون ٹو سے تھا۔ وہ ڈیوٹی کے حوالے سے انتہائی فرض شناس تھا۔ مفتی متقی عثمانی کی پوری فیملی اس پر اعتماد کرتی تھی اور خصوصی طور پر اس کو مفتی تقی عثمانی کے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔ فاروق خود بھی مفتی تقی عثمانی سے خاص عقیدت رکھتا تھا اور ان کے درس بڑے اہتمام سے سنا کرتا تھا۔ تنخواہ کی کمی کے باعث اخراجات پورے کرنے کے لئے اس نے دارالعلوم کراچی کے عقبی علاقے میں ایک کرائے کی دکان لے کر ٹائر پنکچر کا کام شروع کر رکھا تھا۔ ایک ملازم لڑکا بھی رکھا ہوا تھا۔ جبکہ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد دکان پر خود بیٹھ کر ٹائروں کے پنکچر لگاتا تھا۔ محمد فاروق شہید کے والد محمد حنیف دل کے مرض میں مبتلا ہیں اور ان کا علاج چل رہا ہے۔ والدہ فوت ہو چکی ہیں۔ 6 بہنوں میں چار کی شادی کر دی گئی تھی۔ جبکہ دو بہنیں غیر شادی شدہ ہیں۔ جن کیلئے محمد فاروق جہیز جمع کر رہا تھا۔ شہید اہلکار کی ایک بہن فرحانہ بیوہ ہے۔ اس کا شوہر چند سال قبل انتقال کرگیا تھا۔ بیوہ بہن کے 3 سال سے 10 سال تک کے 5 بچے ہیں، جو شہید کی کفالت میں تھے۔ محمد فاروق کا ایک بھائی بابر ہے، جو کباڑی کا ٹھیلہ لگاتا ہے اور بمشکل اپنی فیملی کا گزارا پورا کرتا ہے۔ شہید محمد فاروق کے 7 بچے ہیں۔ جن میں بڑی بچی گیارہ سالہ انعمتہ نابینا ہے، جبکہ تین سالہ حامد رضا اور ایک برس کا علی رضا بھی نابینا ہے۔ دیگر 4 بچوں میں بیٹی ماہ نور اور تین بیٹے احمد رضا، عبید رضا اور جنید رضا شامل ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بڑی بیٹی انعمتہ کا کہنا تھا کہ… ’’ابو مجھے قرآن پاک کی حافظہ بنانا چاہتے تھے اور میں نے کئی پارے حفظ بھی کر لئے ہیں‘‘۔
شہید پولیس اہلکار فاروق کا 3 سالہ نابینا بیٹا حامد رضا باپ کا انتظار کر رہا ہے اور روتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ میرے بابا کہاں ہیں۔ ان کی آواز نہیں آ رہی ہے۔ ان کو بلائو۔ شہید کی اہلیہ کی حالت خراب ہونے پر پھوپھیاں، یتیم بچوں کو سنبھال رہی ہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے شہید کے والد محمد حنیف کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا سر فخر سے بلند ہو چکا ہے۔ میرا بیٹا حرام کی کمائی سے دور بھاگتا تھا اور مفتی تقی عثمانی کے درس گھر آ کر سناتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر میں نہیں بھی رہوں، اللہ آپ لوگوں کیلئے دنیا میں دوسرا سبب دے گا۔ وہ سب کو پالنے والا ہے۔ واقعے والے دن صبح جاتے ہوئے تمام بچوں اور بڑوں سے مل کر گیا تھا‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ مفتی تقی عثمانی جیسی روحانی شخصیت کیلئے میں اپنے تمام بچے قربان کرنے کو تیار ہوں۔ میرے شہید بیٹے نے مثال قائم کر دی کہ انسان حلال روزی کمانا چاہے تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔ اس نے پولیس ڈپارٹمنٹ کیلئے روشن مثال چھوڑی ہے‘‘۔ واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہید اہلکار کے تینوں نابینا بچوں کی آنکھوں کا علاج سرکاری خرچے پر کرائیں گے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment