امت رپورٹ
پاکستان کے سمندر میں چھپے آئل و گیس کے خزانے کی تلاش کا معاہدہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ اس پلان پر پچھلے دو تین برس سے کام ہو رہا تھا۔ تاہم موجودہ حکومت اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش میں ہے۔ واضح رہے کہ چند روز پہلے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان کو تیل کے بڑے ذخیرے کی دریافت کی صورت میں ایک جیک پاٹ (انعام) ملنے والا ہے۔ تاہم انہوں نے اس کی تفصیل بیان نہیں کی تھی۔ اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ سمندر کی تہہ میں موجود آئل و گیس کے ذخائر کی مقدار کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے ہیں۔ اگر وہ درست ثابت ہوگئے تو پاکستان نہ صرف تیل و گیس میں خود کفیل ہوجائے گا۔ بلکہ یہ توانائی ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں بھی آسکتا ہے۔
وزارت پیٹرولیم کے ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ آف شور ڈرلنگ کے لئے ایک اطالوی اور دو پاکستانی کمپنیوں نے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اصل کامیابی اس وقت ہوئی جب آف شور ڈرلنگ میں وسیع تجربہ رکھنے والی بڑی امریکی کمپنی ایگزون موبل بھی اس کنسورشیم کا حصہ بن گئی۔ ’’آف شور ڈرلنگ‘‘ کا مطلب سمندر کے اندر چھپی معدنیات کو تلاش کرنا ہے۔ جبکہ ’’آن شور ڈرلنگ‘‘ سے مراد زیر زمین آئل و گیس کے ذخائر کی تلاش ہے۔ امریکی کمپنی ایگزون نہ صرف سمندر کی تہہ میں معدنیات تلاش کرنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔ بلکہ اس کے پاس اس وقت آف شور ڈرلنگ کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات ہیں۔ آخری بار ایگزون کمپنی لگ بھگ 33 برس پہلے پاکستان آئی تھی۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں سمندر کے اندر آئل و گیس کے بڑے ذخائر کی نشاندہی ہونے کے بعد ایگزون کو دوبارہ پاکستان لانے کی کوشش پچھلے دو تین برس سے ہورہی تھی اور بالآخر 25 جولائی کے عام انتخابات سے قریباً دو ماہ پہلے یہ جدوجہد کامیاب ہوگئی۔ مئی 2018ء کے اواخر میں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی موجودگی میں وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران امریکی کمپنی ایگزون موبل، اطالوی کمپنی ای این آئی اور پاکستانی کمپنیوں او جی ڈی سی ایل اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کے تحت ان چاروں پارٹنرز نے پاکستان کی سمندری حدود انڈس جی بلاک میں آئل و گیس کے ذخائر تلاش کرنا تھے۔ قبل ازیں اس پروجیکٹ کے تین پارٹنرز ای این آئی، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل میں سے ہر ایک کے 33 فیصد شیئرز تھے۔ تاہم ایگزون موبل کے آنے کے بعد چاروں پارٹنرز کے 25 فیصد کے حساب سے مساوی شیئرز ہوگئے ہیں۔ جبکہ ذخائر تلاش کرنے کے اس پروجیکٹ کی لاگت 75 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ حکومت نے کمپنیوں کو ٹیکس سے چھوٹ کی رعایت بھی دی ہے۔
معاہدہ کے وقت طے کیا گیا تھا کہ آئل و گیس کی تلاش کا کام 2019ء کے اوائل میں شروع کردیا جائے گا اور اس برس کی سہ ماہی تک کھدائی کا کام مکمل کرلیا جائے گا۔ اس انڈر اسٹینڈنگ اور معاہدے کے تقریباً دو ماہ بعد پاکستان میں عام انتخابات کا مرحلہ آگیا۔ تاہم نگراں حکومت کے دور میں آف شور ڈرلنگ کے پلان پر کام جاری رہا۔ چونکہ معاہدہ ریاست پاکستان اور غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان ہوا ہے۔ چنانچہ انتخابات کے بعد حکومت تبدیل ہونے کے بعد بھی اس پروجیکٹ پر اسی اسپرٹ کے ساتھ کام ہوتا رہا۔ جنوری کے ابتدا میں الٹرا ڈیپ ڈرلنگ کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایگزون موبل کی ڈرلنگ مشینری اور دیگر ساز و سامان اور ای این آئی کی بھاری مشینری کراچی پورٹ پہنچ گئی۔ دونوں کمپنیوں کی مشینری تین بحری جہازوں میں کراچی پورٹ پہنچی تھی۔ جبکہ دیگر ضروری آلات دو ہیلی کاپٹروں میں لائے گئے تھے۔ اطالوی کمپنی ای این آئی اپنے ساتھ ڈرل کرنے والا جہاز بھی لے کر آئی۔ 6 جنوری کو دونوں کمپنیوں نے ڈرل کا آغاز کیا۔ سمندر کے نیچے ڈرل کا مقام کراچی کے ساحل سے 230 کلومیٹر دور ایرانی بارڈر کے نزدیک انڈس جی بلاک ہے اور جس کنویں (Well) میں کھدائی کی جارہی ہے۔ اس کا نام کیکڑا ایکس ون ہے۔ کنویں کا قطر (Diameter) 18 سے 24 انچ ہے۔ ایگزون موبل اور ای این آئی کو سمندر کی تہہ میں 5500 فٹ ڈرل کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ڈھائی پونے تین ماہ میں جب ڈرل چار ہزار فٹ گہرائی تک پہنچی تو کامیابی کی اولین علامت ظاہر ہوگئی۔ یعنی کھدائی کرنے والی کمپنیوں کو ’’پریشر کِک‘‘مل چکی ہے۔ اس کامیابی کی رپورٹ موصول ہونے پر ہی وزیر اعظم عمران خان نے خوشخبری کی نوید سنائی تھی۔ جن کی حکومت کو بیٹھے بٹھائے اس قدرتی تحفہ کا کریڈٹ ملنے جا رہا ہے اور اس کے لئے جان مارنے والی نون لیگ اقتدار سے باہر ہوچکی ہے۔
ہزارہ یونیورسٹی کے جیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار اور معروف ماہر ارضیات سلمان احمد خٹک نے بتایا کہ Pressure Kick (پریشر کِک )کامیابی کی پہلی علامت ہوتی ہے۔ ’’پریشر کِک‘‘ کا ملنا اس بات کا سائن ہوتا ہے کہ نیچے آئل و گیس کا ذخیرہ موجود ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے سلمان خٹک کا مزید کہنا تھا کہ ’’ کسی مقام پر معدنیات کی تلاش کے لئے ڈرل یا کھدائی کرتے ہوئے جب آپ ذخائر کے نزدیک پہنچ جاتے ہیں تو اس مقام سے مائع (Liquid) پریشر کے ساتھ اوپر آتا ہے۔ ا سے ہی ’’پریشر کِک ‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ نیچے ذخائر موجود ہیں۔ جبکہ ڈرل کرنے والی کمپنیوں نے جو سینسر لگائے ہوتے ہیں، وہ بھی اس پریشر کو شو کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آپ ذخائر کے نزدیک ہیں‘‘۔
انڈس جی بلاک میں سمندر کے نیچے کھدائی کرنے والی کمپنیوں نے تین سے آٹھ کھرب کیوبک فٹ گیس ذخائر کا اندازہ لگایا ہے۔ یہ مقدار سوئی فیلڈ بلوچستان میں دریافت کئے گئے گیس کے ذخائر سے زیادہ ہے۔ اور اگر توقعات کے عین مطابق ذخائر دریافت ہوجاتے ہیں تو پاکستان اگلے 25 سے 30 برس تک یہ گیس استعمال کر سکتا ہے۔
گیس کے علاوہ ان ذخائر سے بڑی مقدار میں تیل نکلنے کی توقع بھی ظاہر کی گئی ہے۔ ’’عرب نیوز‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق جتنے بڑے ذخائر کی توقعات ہیں۔ اگر اتنے ہی ذخائر دریافت ہوجاتے ہیں تو پاکستان تیل پیدا کرنے والے دس بڑے ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔ اور اس دوڑ میں کویت سے آگے نکل جائے گا۔ 2017ء کے اختتام تک کویت میں تیل کے مجموعی ذخائر 101 ارب بیرل سے زائد تھے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی کل ضروریات کا محض 15 فیصد تیل لوکل کنوئوں سے حاصل کرتا ہے۔ اور باقی 85 فیصد آئل اسے امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو بڑے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا رہتا ہے۔ اور اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا حصہ تیل درآمد کرنے پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر سمندر کی تہہ میں جاری ڈرلنگ سے جیک پاٹ لگ جاتا ہے تو نہ صرف درآمدی تیل پر پاکستان کا انحصار ختم ہوجائے گا۔ بلکہ وہ تیل میں خود کفیل بھی ہوسکتا ہے۔
پاکستانی سمندر میں آئل و گیس کی تلاش کے لئے مشرف دور یعنی 2003ء میں بھی چند کمپنیاں پاکستان آئی تھیں۔ ان میں اطالوی کمپنی ای این آئی شامل تھی۔ ان کمپنیوں کو آف شور لائسنس جاری کئے گئے تھے۔ تاہم ایک درجن سے زائد مقام پر کھدائی کے باوجود کنویں خشک نکلے۔ لہٰذا یہ کمپنیاں کام بند کرکے واپس چلی گئی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کئی برس کی اسٹڈی کے بعد ایگزون اور ای این آئی جیسی دنیا کی بڑی کمپنیوں کو دوبارہ آف شور ڈرلنگ پر قائل کیا گیا اور گزشتہ حکومت نے ان کمپنیوں کو واپس آف شور ڈرلنگ پر لانے کے لئے خاصی جدوجہد کی۔ اگر توقعات کے مطابق ذخائر دریافت ہوجاتے ہیں تو اس جدوجہد اور محنت کا پھل قوم کو مل جائے گا اور ملک میں جاری توانائی کے بحران سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
ماہرین ارضیات سلمان خٹک کے مطابق ’’پریشر کِک‘‘ ملنے کا مطلب ذخائر کے قریب پہنچ جانا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ تیل یا گیس ریفائن کرنے کے بعد کتنے میں پڑے گی۔ یعنی گیس نکالنے اور اسے خالص بنانے کے اخراجات وارے میں آتے ہیں یا نہیں۔ اس کا انحصار تیل و گیس کی مقدار پر بھی ہوتا ہے۔ اگر ذخائر توقعات سے کم نکلیں تو پھر عموماً پروڈکشن نہیں کی جاتی۔ کیونکہ اس سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر ذخائر بڑی مقدار میں ہوں تو Economical پڑتے ہیں اور جب ہی پروڈکٹ کو مارکیٹ میںلایا جاتا ہے۔ تاہم سلمان خٹک کے بقول انڈس جی بلاک میں آف شور ڈرلنگ کے ذریعے آئل و گیس کا بڑا ذخیرہ ملنے کی قوی امید ہے اور اب تک کے پروسس سے لگ رہا ہے کہ یہ Producing Well ہماری انرجی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ قوم کے لئے خوشخبری ہے۔ اس کے لئے محنت کے ساتھ دعائوں کی ضرورت بھی ہے۔ اس سوال پر کہ ذخائر دریافت ہونے کے بعد پروڈکٹ مارکیٹ میں آنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ سلمان خٹک کا کہنا تھا کہ ’’اس میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ کیونکہ ہمارے پاس آئل کو ریفائن کرنے کی انڈسٹری پہلے سے دستیاب ہے‘‘۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’پریشر کِک‘‘ ملنے پر مزید ڈرل کے بعد ڈیڑھ سے دو ہفتے میں سمندر کی تہہ میں چھپے ذخائر کی مقدار کا حتمی تعین ہوجائے گا۔ کسی تکنیکی وجہ سے کام کچھ روز کے لئے رکتا ہے تو تھوڑی بہت تاخیر ہوسکتی ہے۔ تاہم اپریل قوم کے لئے خوشخبری کا مہینہ ثابت ہوسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭