حضرت محمدؒ بن علیؓ بن ابی طالبؒ (عرف محمد بن حنفیہ)
’’حضرت علیؓ سے ان کے بیٹے حضرت محمدؒ بن حنفیہ نے سب سے زیادہ علم و ادب حاصل کیا۔‘‘
حضرت محمد بن حنفیہؒ اور ان کے بھائی حضرت حسن بن علیؓ کے آپس میں تعلقات خراب ہوگئے۔ حضرت محمد بن حنفیہؒ نے حضرت حسنؓ کو خط لکھا جس میں تحریر تھا:
’’حق تعالیٰ نے آپ کو کئی اعتبار سے اونچا درجہ نصیب فرمایا ہے۔ کئی اعتبار سے آپ کو مجھ پر برتری عطا کی، وہ اس طرح کہ:
آپ کی والدہ ماجدہ رسول اقدسؐ کی بیٹی (حضرت فاطمہؓ) ہیں اور میری والدہ ماجدہ قبیلہ بنو حنفیہ کی ایک عام عورت ہیں۔
اسی طرح آپ کے نانا خدا کے رسولؐ اور اس کی مخلوق کے سردار ہیں اور میرے نانا جعفر بن قیس ایک عام آدمی ہیں۔
جب میرا یہ خط آپ کے پاس پہنچے تو میرے ساتھ صلح کرنے کے لئے فوراً چلے آئیے، تاکہ اس میں بھی آپ کو ہی فضیلت و برتری حاصل رہے۔‘‘
جب یہ خط حضرت حسنؓ کے پاس پہنچا تو وہ جلد ان کے پاس آئے اور صلح فرما لی۔
یہ عقل مند و سمجھ دار شخص جنہوں نے ہمیشہ ہوشیاری سے لڑائی پر صلح کو ترجیح دی، اور حکمت عملی سے دوسرے کو بھی صلح پر بہترین طریقے سے تیار کرلیا، یہ شخص کون تھے؟
آیئے! شروع سے ہم ان کی زندگی کے حالات لکھتے ہیں، آپ دعا کرکے ان کے حالات پڑھیں کہ حق تعالیٰ ہمیں بھی بھائیوں سے صلح کی اس طرح توفیق نصیب فرما دے اور جیسے رب تعالیٰ نے ان کو نیک بنایا تھا، ہمیں بھی نیک بنا دے، آمین۔
محمد بن حنفیہؒ کی ولادت با سعادت
اس واقعہ کا آغاز رسول اکرمؐ کی زندگی مبارک کے آخری دنوں سے ہوتا ہے۔
ایک روز حضرت علیؓ نبی اکرمؐ کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے اور عرض کیا:
’’حضور! اگر اب مجھے آپ کے انتقال کے بعد حق سبحانہ و تعالیٰ بیٹا عطا کرے تو کیا اس کا نام آپ کے نام پر اور اس کی کنیت آپ کی کنیت کی طرح رکھ سکتا ہوں؟‘‘
فرمایا: ’’ہاں، کیوں نہیں!‘‘
پھر یونہی دن گزرنے لگے، نبی اکرمؐ دنیا سے تشریف لے گئے۔ آپؐ کے انتقال کے چند ماہ بعد آپؐ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ بتولؓ کا بھی انتقال ہوگیا۔
ان کی وفات کے بعد حضرت علیؓ نے قبیلہ بنو حنفیہ کی ایک خاتون خولہ بنت جعفر بن قیس سے شادی کرلی۔ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام محمد رکھا گیا۔ اس کی کنیت رسول اکرمؐ کی اجازت کے مطابق ابوالقاسم رکھی گئی، لوگ انہیں محمد بن حنفیہ کے نام سے پکارنے لگے تاکہ حضرت فاطمۃ الزہرائؓ کے لاڈلے بیٹوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے درمیان ان کا فرق ہو سکے۔ پھر یہ تاریخ میں اسی نام سے مشہور ہوئے۔
حضرت محمد بن حنفیہؒ حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت کے آخری دنوں میں پیدا ہوئے، اپنے والد محترم حضرت علیؓ کی نگرانی میں پرورش پائی اور انہیں سے علم، زہد اور تقویٰ حاصل کیا، ان کی طاقت اور بہادری کے وارث بنے اور انہی سے صاف بات کرنے کے گر سیکھے۔
وہ بیک وقت رب تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے میدان جنگ کے نڈر اور بہادر مجاہد بھی تھے اور ساتھ ساتھ تقریر و بیان اور میدان خطابت کے عظیم شہسوار بھی تھے۔
جب رات کی تاریکی چھا جاتی، لوگ نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے تو یہ مصلے پر کھڑے ہوکر تہجد کی نماز میں حق سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام ہوتے، سجدہ ریز ہوتے، گڑ گڑاتے اور آہ و زاریاں کرکے دعائیں مانگتے تھے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭