تثلیث سے توحید تک

جاپان واپس آنے کے تین ماہ بعد میں اپنے شوہر (ایک جاپانی مسلمان سے جو قاہرہ میں زیر تعلیم تھے، میں نے اپنے مصر کے قیام کے آخری ایام میں ان سے شادی کرلی) کے ساتھ سعودی عرب گئی، جہاں انہیں ملازمت مل گئی۔میں نے اپنے چہرے کو چھپانے کے لیے ایک چھوٹا سا سیاہ کپڑا بنا لیا تھا، جس کو نقاب کہا جاتا ہے۔یہ میں نے اس لیے نہیں بنایا تھا کہ میں نے اپنی قاہرہ والی بہن کے طرز پر سوچنا شروع کردیا تھا۔ مثلاً یہ کہ پردہ ایک مسلمان عورت کے مطلوبہ لباس کا ایک جزو ہے، بلکہ میرا خیال تھا کہ چہرہ اور ہتھیلی کھلی رکھنے کی اجازت تھی ، تاہم مجھے سعودی عرب جانے اور چہرہ کا نقاب لگانے کی شدید خواہش تھی۔مجھے یہ جاننے کا اشتیاق و تجسس تھا کہ پردے کے اندرون سے مجھے کیسا لگے گا؟
ریاض پہنچنے کے بعد میں نے دیکھا کہ سبھی عورتیں چہرے کا نقاب نہیں لگائی ہوئی تھیں۔غیر مسلم عورتیں اپنے سروں کو ڈھکے بغیر لا پروائی کے ساتھ اپنے شانوں پر سیاہ عبا ڈالے رہتی تھیں۔بہت سی غیر ملکی مسلم عورتیں پردہ نہیں کرتی تھیں۔پھر بھی تمام سعودی عورتیں سر سے پائوں تک مکمل طور پر پردے کا استعمال کرتی تھیں۔
پہلے مجھے حیرت ہوتی تھی کہ مسلم بہنیں برقعہ کے اندر آسانی سے کیسے سانس لے سکتی ہیں۔اس کا انحصار عادت پر ہے، جب کوئی عورت اس کی عادی ہو جاتی ہے تو کوئی دقت نہیں ہوتی۔پہلی بار میں نے نقاب لگایا تو مجھے بہت عمدہ لگا۔دراصل انتہائی حیرت انگیز ، ایسا محسوس ہوا گویا میں ایک اہم شخصیت ہوں۔مجھے ایک ایسے شاہکار کی ملکہ کا احساس ہوا، جو اپنی پوشیدہ مسرتوں سے لطف اندوز ہو، میرے پاس ایک خزانہ تھا، جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہ تھا، جسے اجنبیوں کو دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔
ریاض میں ابتدائی چند مہینوں تک صرف میری آنکھیں کھلی رہتی تھیں۔ لیکن جب میں نے جاڑے کا برقع بنایا تو اس میں آنکھوں کا باریک نقاب بھی شامل کر لیا۔ اب میرا پردہ مکمل تھا۔ اس سے مجھے یک گونہ آرام ملا۔ اب مجھے بھیڑ میں کوئی پریشانی نہ تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں مردوں کے لیے غیر مرئی ہوگئی ہوں۔ آنکھوں کے پردے سے قبل مجھے اس وقت بڑی پریشانی ہوتی تھی جب اتفاقیہ طور پر میری نظریں کسی مرد کی نظروں سے ٹکراتی تھیں۔ اس نئے نقاب نے سیاہ عینک کی طرح مجھے اجنبیوں کی گھورتی نگاہوں سے محفوظ کر دیا۔ ایک غیر مسلم کسی داڑھی والے مرد کو ایک سیاہ برقع پوش خاتون کے ساتھ دیکھ سکتا ہے۔ اس جوڑے کے متعلق ایک ایسے ہیولے کا تصور ہوسکتا ہے جو ظالم و مظلوم یا غالب و مغلوب ہو۔ اسلام میں شوہر و بیوی کا ایسا تعلق ایک صفت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح عورت یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کا احترام اور حفاظت ایک ایسے شخص کے ذریعہ کیا جاتا ہے، جو واقعتاً اس کا لحاظ کرتا ہے یا میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ ایک ایسی شہزادی جس کا ہم سفر اس کا محافظ ہوتا ہے۔ یہ کہنا زبردست مغالطہ ہے کہ مسلم عورتیں مردوں کے صرف نجی ملکیت ہیں اور انہوں نے حسد کی بنا پر اس بات سے روک دیا ہے کہ اجنبی مرد انہیں دیکھیں۔ ایک عورت اپنے آپ کو رب کے فرمان کی اتباع میں چھپائے رکھتی ہے تاکہ اس کو عظمت و سربلندی حاصل ہو۔ وہ گھورتی ہوئی اجنبی نگاہوں کا محور بننے یا ان کے شے ہونے سے انکار کر دیتی ہے۔ وہ اپنے اندر مغربی عورتوں کے لیے ہمدردی اور ترحم کا جذبہ رکھتی ہے، جنہیں سینکڑوں ہوس ناک نگاہیں بے رحمی سے گھورتی ہیں اور جنہیں نفسانی خواہشات کے لیے بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے۔
مجھے مسلمان ہوئے دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ میرے ماحول اور مذہبی شعور کے ساتھ ساتھ میرا حجاب پانچ بار تبدیل ہوا۔ فرانس میں اپنا مذہب تبدیل کرنے کے فوراً بعد میں نے ہم رنگ فیشن ایبل لباس اور اسکارف استعمال کیے۔ سعودی عرب میں اب میں سر سے پاؤں تک مکمل سیاہ نقاب میں پوشیدہ ہوں، اس لیے مجھے حجاب کے آسان ترین طرز سے مکمل طرز کا تجربہ ہے۔
کئی سال قبل جب ایک جاپانی مسلمہ سر پر دوپٹہ لگائے ہوئے ٹوکیو کی ایک مسلم تنظیم میں نظر آئی تو جاپانی مسلم عورتوں نے اس سے کہا کہ وہ اپنے لباس کے معاملے میں دوبارہ غور کرے، کیونکہ اس طرز کے لباس سے جاپانیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس وقت جاپان میں بہت کم مسلم عورتیں اپنے سروں کو چھپاتی تھیں۔ اب زیادہ سے زیادہ جاپانی عورتیں اسلام قبول کر رہی ہیں اور مشکل حالات کے باوجود سروں تک کو چھپا رہی ہیں۔ وہ سب یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ اپنے حجاب پر نازاں ہیں اور اس سے ان کے ایمان و یقین کو تقویت ملتی ہے۔
باہر سے حجاب کو دیکھ کر کوئی شخص اس شے کا تصور ہی نہیں کرسکتا جو اس کے اندرون سے مشاہد ہوتا ہے۔ ہم اس معاملے کو دو مختلف زاویہ ہائے نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک غیر مسلم کو اسلام ایک جیل خانہ کی طرح نظر آتا ہے جس میں کسی طرح کی آزادی نہیں ہے۔ لیکن اسلام میں رہ کر ہمیں سکون، آزادی اور ایسی مسرت کا احساس ہوتا ہے، جس کو کسی اور شکل سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایک پیدائشی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ وہ اسلام کو سب سے بہتر طرز حیات سمجھتا ہے، کیونکہ وہ اس سے ابتدا ہی سے واقف ہوتا ہے اور باہر کی دنیا کے کسی اور تجربے کے بغیر وہ بڑا ہوتا ہے، لیکن میں تو پیدائشی مسلمہ نہیں ہوں، بلکہ میں نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے، میں نے نام نہاد آزادی اور جدید طرز حیات کی دل فریبیوں اور لذتوں کو خیرباد کہہ کر اسلام کا انتخاب کیا ہے۔ اگر یہ درست ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جو عورتوں پر ظلم کر رہا ہے تو آج یورپ، امریکہ، جاپان اور دوسرے ممالک میں بہت سی خواتین اسلام کیوں قبول کر رہی ہیں؟ کاش کہ لوگ اس پر روشنی ڈالتے۔
کوئی شخص تعصب کی عینک لگا کر کسی ایسی عورت کے مقام کا مشاہدہ کرنے کے لائق نہیں ہوسکتا جو حجاب میں پر اعتماد مطمئن پُرسکون اور باوقار ہو۔ جس کے چہرے پر مظلومیت کا سایہ تک نہ ہو۔ قرآن مجید ان لوگوں کو اندھا کہتا ہے، جو خدا تعالیٰ کی نشانیوں کے منکر ہیں۔ اس طرح ہم واضح کر سکتے ہیں کہ اسلام کو سمجھنے میں غیر مومن کی سمجھ بوجھ ناقص ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment