پڑھئے اور ایمان کو جلا بخشئے

نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:
’’قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔‘‘ (ترمذی،ج 4 ص209)
شاید ہمارا ایمان یہ واقعات پڑھ کے تازہ ہو جائے اور ہمیں ہدایت مل جائے۔ (آمین یا رب العالمین)
1- ولید بن عبد الملک اموی کے دور حکومت میں جب روضہ منورہ کی دیوار گر پڑی اور بادشاہ کے حکم سے نئی بنیاد کھودی گئی تو ناگہانی بنیاد میں ایک پائوں نظر آیا، لوگ گھبرا گئے اور خیال کیا کہ یہ حضور اقدسؐ کا پائے مبارک ہے۔ لیکن جب حضرت عروہ بن زبیرؓ نے دیکھا اور پہچانا تو قسم کھا کے فرمایا کہ یہ حضور انورؐ کا مقدس پائوں نہیں، بلکہ یہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کا قدم شریف ہے۔ یہ سن کر لوگوں کی گھبراہٹ اور بے چینی کو سکون ملا۔ (بخاری 1/186)
2-حضرت طلحہؓ کو شہادت کے بعد بصرہ کے قریب دفن کیا گیا، مگر قبر نشیب میں ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپؓ نے ایک شخص کو بار بار خواب میں آکر اپنی قبر بدلنے کا حکم دیا، چنانچہ اس شخص نے دس ہزار درہم میں ایک صحابیؓ کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اور حضرت طلحہؓ کے مقدس جسم کو پرانی قبر سے نکال کر اس قبر میں دفن کیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوجود آپؓ کا مقدس جسم سلامت اور تروتازہ تھا۔ (کتاب عشرہ مبشرہ/ 245)
3- حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے دور حکومت میں مدینہ منورہ کے اندر نہریں کھودنے کا حکم دیا، ایک نہر حضرت حمزہؓ کے مزار اقدس کے پہلو میں نکل رہی تھی۔ لا علمی میں اچانک نہر کھودنے والے کا پھاوڑہ آپؓ کے قدم مبارک پر پڑ گیا اور آپؓ کا پائوں کٹ گیا اور اس میں سے تازہ خون بہہ نکلا، حالانکہ آپؓ کو دفن ہوئے 46 سال گزر چکے تھے۔ (حجتہ اللہ2/864، بحوالہ ابن سعد)
4- حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبد اللہؓ کا جسم مبارک دو مرتبہ قبر سے نکالا گیا، پہلی بار دفن کے چار ماہ بعد نکالا گیا تو وہ اس حالت میں تھے، جس حالت میں دفن کیا گیا تھا۔ ( بخاری/180، حاشیہ بخاری)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دوسری مرتبہ 46 برس کے بعد اپنے والد ماجد حضرت عبداللہؓ کی قبر کھول کے ان کے جسم کو نکالا، تو میں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا۔ پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہو گیااور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا، بدستور صحیح وسالم تھا۔ (حجتہ اللہ علی العالمین 2/864 بحوالہ بیہقی)
5- غالباً یہ واقعہ 20 ذوالحجہ1351 ہجری میں پیش آیا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک رات شاہ عراق نے صحابی رسولؐ حضرت حذیفہ الیمانؓ جو حضورؐ کے رازدار صحابی کے طور پر مشہور ہیں، کو خواب میں دیکھا۔
آپؓ نے خواب میں فرمایا کہ میرے مزار میں پانی اور حضرت جابرؓ کے مزار میں نمی آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس لئے ہم دونوں کو اصل مقام سے منتقل کرکے دریائے دجلہ سے ذرا فاصلے پر دفن کر دیا جائے۔
امور سلطنت میں مشغول شاہ عراق دن کے وقت یہ خواب بھول گئے۔ دوسری شب انہیں پھر یہی ارشاد ہوا اور اگلی صبح وہ پھر بھول گئے۔ تیسری شب حضرت حذیفہ الیمانؓ نے عراق کے مفتی اعظم کو خواب میں اسی غرض سے ہدایت کی۔ نیز فرمایا کہ ہم دو راتوں سے بادشاہ سے بھی کہہ رہے ہیں، لیکن وہ مصروفیت میں بھول جاتا ہے۔ اب تم بادشاہ کو اس طرف متوجہ کروائو، اس سے کہو کہ ہمیں موجودہ قبروں سے منتقل کرانے کا فوری بندوبست کرے۔ چنانچہ مفتی اعظم نے وزیر اعظم نوری السعید پاشا کو ساتھ لے کر بادشاہ سے ملاقات کی اور اپنا خواب سنایا۔
شاہ عرق نے کہا کہ آپ اس سلسلے میں فتویٰ دے دیں۔ مفتی اعظم نے صحابہ کرامؓ کے مزارات کو کھولنے اور ان کو منتقل کرنے کا فتویٰ دیدیا۔ یہ فتویٰ اور شاہ عراق کا فرمان اخبارات میں شائع کر دیا گیا، جس سے تمام دنیائے اسلام میں جوش و خروش پھیل گیا۔ رائٹر اور دیگر خبر رساں اداروں نے اس خبر کی دنیا بھر میں تشہیر کردی۔
حج کے موقع پر دنیا بھر کے بیشتر ممالک سے شاہ عراق کے نام لا تعداد خطوط شرکت کے لئے پہنچنا شروع ہو گئے۔ اس موقع پر حکومت عراق نے خاص طور پر کسٹم اور روپے کی تمام پابندیاں ختم کر دیں، حتیٰ کہ پاسپورٹ کی قید بھی نہ رکھی، مدائن جیسا چھوٹا قصبہ ان دنوں دس روز کے اندر یہ اندر آبادی اور رونق کے لحاظ سے دوسرا بغداد بن گیا۔
ترکی اور مصر سے خاص طور پہ سرکاری وفود آئے۔ ان دس دنوں میں جن جن خوش نصیب لوگوں کی قسمت ان بزرگوں کی زیارت لکھی تھی، وہ پہنچ چکے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پانچ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔پیر کے روز بارہ بجے کے بعد مزارات مقدسہ کھولے گئے۔ معلوم ہوا کہ مزار میں نمی پیدا ہو چکی تھی۔ پہلے حضرت حذیفہؓ کے جسم مبارک کو کرین کے زریعے اسطرح اٹھایا گیا کہ ان کا مقدس جسم کرین پر نصب کئے گئے اسٹریچر پر خود بخود آگیا۔
کرین سے اسٹریچر کو الگ کرکے شاہ عراق، مفتی اعظم عراق، وزیر مختار جمہوریہ ترکی اور شہزادہ فاروق (مصر کے ولی عہد) نے کندھا دیا اور بڑے احترام سے ایک شیشے کے تابوت میں رکھ دیا اور اسی طرح حضرت جابرؓ کے جسم مبارک کو نکالا گیا۔
خدا کا شکر کہ دونوں اصحاب رسولؐ کے اجسام مقدسہ، ان کے کفن حتیٰ کہ ریش مبارک کے بال تک بلکل صحیح سلامت تھے، اجسام مبارکہ کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی شاید انہیں رحلت فرمائے چند گھنٹے سے زائد کا وقت نہیں گزرا۔ سب سے عجیب بات تو یہ تھی کہ ان دونوں مقدس ہستیوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں ایک عجیب چمک تھی۔ کئی لوگوں نے چاہا کہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں، لیکن ان کی نظریں اس چمک کے آگے ٹھہرتی ہی نہ تھیں۔ بڑے بڑے ڈاکٹرز یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
ایک جرمن ماہر چشم جو بین الاقوامی شہرت کا حامل تھا، اس تمام کارروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا، اس منظر سے اتنا بے اختیار ہوا کہ آگے بڑھ کر مفتی اعظم سے یہ کہتے ہوئے کہ مذہب اسلام کی حقانیت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے، مسلمان ہو گیا۔
اجسام مبارکہ کو عراقی فوج نے باقاعدہ سلامی پیش کی۔ اس کے بعد بادشاہوں اور علماء کے کندھوں پر تابوت اٹھے۔ سفراء اور اعلیٰ حکام کو بھی یہ شرف حاصل ہوا، اس کے بعد ہر شخص جو وہاں موجود تھا، اس سعادت سے مشرف ہوا۔کم و بیش 80 سال قبل ہونے والا یہ ایمان افروز واقعہ تقریباً 20، 25 سال تک بارہا جرائد واخبارات میں شائع ہوتا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment