شیخ محمد عبد العزیز المسند سعودی عرب کے مشہور عالم دین ہیں۔ انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’العائدون الی اللہ‘‘ میں ذیل کا واقعہ نقل فرمایا ہے:
فرماتے ہیں کہ میرے ایک جاننے والے نے مجھ سے اپنا واقعہ یوں بیان کیا:
سخت گرمیوں کے موسم میں ایک دن عصر اور مغرب کے درمیان میں اپنے کمرے کے کونے میں لگے شیشے کے سامنے کھڑا بال ٹھیک کر رہا تھا اور موسیقی کی کان پھاڑ دینے والی آواز کا شور فضائوں میں گونج رہا تھا… اچانک میرے دل کی دھڑکنیں بہت تیز ہوگئیں، جس کی وجہ مجھے معلوم نہ ہو سکی۔
میں نے آگے بڑھ کر کیسٹ پلیئر کو بند کر دیا، جس سے مغربی موسیقی کا وہ شور ختم ہوگیا، جس کی خود مجھے بھی کوئی سمجھ نہ آتی تھی، مگر میرے دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھتی ہی چلی گئی، میں تازہ ہوا لینے کے لیے کھڑکی کی طرف لپکا، مگر مجھے عجیب سا لگ رہا تھا اور اپنی اس حالت کی کوئی وجہ بھی پتہ نہ چل رہی تھی! یہ کوئی پہلا موقع تو نہ تھا کہ میں یوں تیاری کرکے گھر سے نکل رہا ہوں۔
یہ تو میرا معمول تھا، میں اس طرح گھر سے نکلتا، کسی بازار میں چلا جاتا اور ادھر ادھر نظریں گھماتے لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے دل بہلاتا۔ آج بھی میں اسی طرح نکلا اور گھر سے دروازے کی طرف جاتے ہوئے اپنی امی کے پاس سے گزرا۔ جب میں ان کے پاس سے گزر چکا تو انہوں نے مجھے آواز دی:
اے احمد! میں نے کل تجھے خواب میں دیکھا تھا، مگر میں نے سنی ان سنی کر دی اور چلتا رہا۔ امی نے دوڑ کر میرا بازو پکڑ لیا اور بولیں: ’’احمد تمہاری اس فضول خواہش پرستی اور وقت ضائع کرنے کی کوئی حد بھی ہے؟‘‘
میری نظر ان کی نظر سے ٹکرائی تو میرے دل کی مشکوک دھڑکن دوبارہ تیز ہوگئی، مگر میں خاموشی سے دروازے سے نکل گیا اور اپنے دوست کی طرف چلا گیا۔ جونہی میں اس کی عالی شان گاڑی میں سوار ہوا، وہ میری طرف متوجہ ہوا اور اپنی سلگتی سگریٹ کا دھواں میری طرف پھونکا۔ میری حالت تو ابھی سنبھلی بھی نہ تھی، دل بدستور تیزی سے دھڑک رہا تھا، میں نے کیسٹ پلیئر کی آواز بڑھا دی کہ شاید میرا دل اس میں مصروف ہو اور میری حالت کچھ سنبھل جائے۔
اس نے پوچھا: آج کون سے بازار چلنا ہے؟ جونہی میں نے یہ بات سنی، میرا جسم کانپ کر رہ گیا، ہاں بازار، مجھے یوں لگ رہا تھا، جیسے کل کی باتوں نے میرے کانوں کو بہرا کر دیا ہو۔
مجھے ان الفاظ کی صدا کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا، وہ الفاظ جو زندگی سے بھرپور تھے:
’’میرے بھائی! کیا یہ بری بات نہیں کہ تم اپنی جوانی یونہی منہ ماری کرتے کرتے ضائع کردو، مسلمانوں کی لڑکیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اور یوں معاشرے کو بگاڑنے اور دشمنوں کے منصوبوں کو کامیاب کرنے میں مصروف رہو، تم تو مسلمان خاندان کے چشم و چراغ ہو،
ہمارے اپنے جگر کے ٹکڑے ہو، میرے بھائی کیا تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا۔‘‘
اس طرح یہ الفاظ مسلسل میری عقل کی فضائوں میں بجلی بن کر کڑک رہے تھے اور اس شخص کی شکل و صورت جس کا چہرہ ایمان سے منور اور پاکیزگی کا آئینہ دار تھا، میرے ذہن سے نکل ہی نہیں رہی تھی، وہ بزرگ جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے محکمہ (سعودی عرب کی مذہبی پولیس) سے تعلق رکھتے تھے، جنہوں نے کل مجھے بازار میں گھومتے اور لڑکیوں کے پیچھے پھرتے دیکھا تو میرا بازو پکڑ لیا اور یہ سب باتیں میرے کان میں کہیں جو میرے لیے ہر قسم کی دھمکی اور وعید سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئیں۔
میں نے آنکھ کھولی تو محسوس ہوا کہ میرا دوست مسلسل میرا کندھا پکڑ کر ہلا رہا تھا اور پوچھ رہا تھا کہ تمہیں آج کیا ہوا ہے؟
میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: کچھ بھی نہیں، میں گھر واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ وہ کیا طاقت تھی، جس نے میرے دوست کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بلاچوں و چرا مجھے گھر واپس لے آیا۔
میں گاڑی سے اترا اور دوست کو الوداع کہے بغیر ہی گھر چلا گیا، گھر پہنچ کر میری حیرت کی انتہا ہوگئی، جب میں نے دیکھا کہ ہمارا گھر مردوں عورتوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں ششدر رہ گیا۔ کچھ دیر بعد چھوٹے بھائی کو سسکیاں لے کر روتے دیکھا تو میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا:
’’تمہیں کیا ہے؟‘‘
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، پھر کھانسا… تھوڑی دیر کے بعد اس نے اپنا ننھا سا سر اٹھایا اور آنسوئوں سے بھری ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا: ’’احمد! میری ماں فوت ہوگئی ہے، انہیں دل کا دورہ پڑا ہے اور فوت ہوگئی ہیں۔‘‘
مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل رکا جا رہا ہے اور میں نے کہا: ’’کاش! میرا دل پھر سے اسی طرح دھڑکنے لگ جائے، مگر ایسا نہ ہوا۔‘‘
اب اس واقعہ کو تین سال گزر چکے ہیں اور میں آج تک اسے اپنے آنسوئوں سے سیراب کر رہا ہوں اور میرے دل سے بار بار اس نیک آدمی کے حق میں دعائیں نکل رہی ہیں جس نے مجھ پر حقیقی مہربانی فرمائی اور دل سے نصیحت کی جو میرے دل میں اتر کر میری توبہ کا ذریعہ بن گئی۔
اگر میری اس نیک دل شخص سے ملاقات نہ ہوتی تو شاید میری زندگی اسی طرح گناہوں کی کثرت اور نحوست کی وجہ سے ویرانی، پریشانیوں کی نذر ہو کر ضائع ہو جاتی۔ آج میں اپنے پروردگار کا شکرگزار ہوں جس نے اپنی رحمت سے مجھے توبہ کی توفیق عطا کرکے اپنے خاص بندوں کی طرح اعمالِ صالحہ سے بھرپور زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائی۔ (حوالہ العائدون الی اﷲ لنا 36 تا 38)
٭٭٭٭٭