سرفروش

عباس ثاقب
یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ راستے بھر میں اور خصوصاً امرتسر میں پولیس نہایت بے رحمی سے مسافروں سے باز پرس کر رہی ہوگی۔ کسی نازک موقع پر ان کا حواس باختہ ہونا انہیں مشکل میں پھنسا سکتا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ہمیں ان پر گزرنے والی مصیبت کی کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔
میں نے خو د کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ میں یہ منفی خیالات خوا مخواہ اپنے ذہن پر سوار کر رہا ہوں۔ لیکن میرا ذہن پُرسکون نہیں ہوا۔ میں جیسے جیسے سوچتا گیا۔ مجھے پستول اور خط بھی ان کے ساتھ کرنا حماقت لگنے لگا۔ ان کے بغیر وہ زیادہ سے زیادہ مشکوک سمجھے جاتے اور شاید پوچھ گچھ کے بعد انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا۔ لیکن ایسے خطرناک ہتھیار اور تباہ کن متن کے حامل خط کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر تو انہیں سیدھا دلّی میں خفیہ پولیس کے ہیڈ کوارٹر لے جاکر بند کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد ان کی زبان کھلوانا اور ان سے حاصل شدہ معلومات کے پیچھے چل کر میرے اس ٹھکانے تک پہنچ جانا تو ان کے لیے بچوں کے کھیل جیسا ہوگا۔
لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب جانے والوں کو واپس لانا یا صورتِ حال کا تدارک یا تلافی کرنا میرے لیے کسی طرح بھی ممکن نہ تھا۔ نان اسٹاپ بس اب تو شاید لدھیانے سے بھی آگے نکل چکی ہو۔ اگر اب تک ان دونوں کو کسی پولیس ناکے پر پکڑ کر بٹھا نہ لیا گیا ہو۔
یہ سوچ سوچ کر میرا اضطراب ذہنی خلفشار کی حدیں چھونے لگا۔ اس دوران میں جمیلہ میرے لیے چائے لے کر آئی تو اس ذکی لڑکی نے میری ذہنی کیفیت تاڑ لی۔ اس کے پوچھنے پر میں اپنے خدشات چھپانے سے قاصر رہا۔ مجھے اس کے چہرے پر بھی تشویش آمیز سنجیدگی چھاتی نظرآئی۔ تاہم جب وہ بولی تو پریشانی کے بجائے اس کے لہجے میں امید اور حوصلے کی جھلک نمایاں تھی۔ ’’جمال بھائی۔ آپ کے خدشات میں بہت وزن ہے۔ لیکن یہ بھی تو سوچیے کہ وہ ایک نیک مقصد کے لیے جا رہے ہیں اور ہم نے انہیں اللہ رب العزت کی امان میں دے کر رخصت کیا ہے اور وہی ان کی حفاظت کرے گا۔ اور اگر خداوند کریم نے انہیں کسی آزمائش کے لیے چُن ہی لیا ہے تو ہم اس کی منشا کے سامنے بے بس ہیں۔ لہٰذا اوپر والے سے بہتری کی امید رکھنے اور ان کی سلامتی کی دعا مانگتے رہنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے!‘‘۔
جمیلہ کی بات سن کر مجھے لگا کہ میری آنکھوں کے سامنے سے کوئی چادر سرک گئی ہے۔ یہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ اب تک جو کچھ ہو چکا ہے۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی خصوصی کرم نوازی کا ہی نتیجہ ہے۔ ورنہ مجھ جیسے معمولی انسان میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی کہ اتنے بڑے ملک کے اتنے طاقت ور حکمرانوں اور عمل داروں کے ہوتے ہوئے اب تک نہ صرف یہاں آزاد پھر رہا ہوں۔ بلکہ اپنے وطن کی سلامتی کے لیے اپنی بساط کے مطابق چند کارروائیاں سر انجام دینے میں بھی کامیاب رہا ہوں۔ جو ربِ ذوالجلال ہر قدم میری مشکلیں آسان کرتا رہا ہے۔ وہی ان دونوں کا بھی حامی و ناصر ہے۔ اور اگر بالفرض وہ اپنی کاوش کے دوران کسی مشکل میں گرفتار ہو بھی جاتے ہیں۔ یا اللہ کریم انہیں شہادت کے رتبے سے بھی سرفراز کرنا چاہے تو یہ ان کی خوش بختی ہوگی۔ وہ دونوں بھی یہ سب جانتے بوجھتے سر پر کفن باندھ کر نکلے ہیں۔ جہاں تک قاتل بنیا سرکار کو ہم تک پہنچنے کا راستہ ملنے کا سوال ہے۔ تو وقت آنے پر ان سے بھی نمٹ لیں گے۔
میں نے یک لخت خود کو پُرسکون اور ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ اس لڑکی نے صرف چند جملوں سے مجھے بہت بڑی ذہنی اذیت سے نجات دلادی تھی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور شاباش دی۔ وہ خوشی سے جگمگا اٹھی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ اپنی کتابیں اٹھائے میرے سر پر سوار ہوگئی اور زبردستی مجھے استاد بناکر مہینوں برسوں کے تعلیمی اسباق ایک ساتھ اخذ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ مجھے پتا چلا کہ وہ حسبِ موقع ناصر اور یاسرسے بھی تدریسی معاونت حاصل کرتی رہتی ہے اور بہت کم دنوں میں وہ کافی کچھ پڑھنے لکھنے کے قابل ہو چکی ہے۔
رات کے کھانے کے بعد وقت گزاری کے لیے دماغ آزمائی والے کھیلوں کی کئی بازیاں جمیں۔ ناصر کے علاوہ خالہ کو بھی اس نے زبردستی شریک کرلیا۔ نصف رات سے پہلے ناصر کے ساتھ میں اس کے کمرے میں چلا گیا اور کچھ دیر گپ شپ کرنے کے بعد ہم دونوں سوگئے۔ صبح ناشتے کے بعد ناصر تو اپنے آڑھت خانے میں جا بیٹھا۔ میں نے کتابوں کے مطالعے میں خود کو مصروف کرنا چاہا۔ ہم لوگوں نے آپس میں تذکرہ نہیں کیا تھا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ سب نے دل ہی دل میں یاسر اور رخسانہ کی واپسی کا انتظارآنکھ کھلتے ہی شروع کر دیا تھا۔ میں نے جمیلہ کو دوپہر کے کھانے پر مجھے بلانے سے منع کر دیا تھا۔ وہ عین وقت پر آن دھمکی اور ہلکے پھلکے کھانے کے نام پر کافی کچھ کھلا دیا۔ ناصر بھی میرے ساتھ شریک تھا۔ شام ڈھلنے تک انتظار ایک بار پھر اضطراب میں بدلنے لگا۔ بے تاب ہوکر میں گھر کی بیٹھک میں جا پہنچا۔ جمیلہ حسبِ عادت میرے بیٹھنے کے کچھ ہی دیر بعد الائچی والی چائے لے آئی۔ اس کے جانے کے بعد ابھی میں نے آدھی پیالی ہی ختم کی تھی کہ مجھے جمیلہ کے خوشی سے بولنے کی آواز سنائی دی۔ وہ کسی کی خیریت پوچھ رہی تھی۔ وہ یقیناً رخسانہ ہی سے مخاطب تھی۔ عین اسی وقت ناصر اور یاسر بیٹھک میں داخل ہوئے۔ میرا دل فرطِ مسرت سے جھوم اٹھا۔
میں بے تابی کے عالم میں یاسر سے لپٹ گیا۔ ’’اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ میں بتا نہیں سکتا آپ کو دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی یاسر بھائی! طرح طرح کی فکروں نے نڈھال کر رکھا تھا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment