مرزا عبدالقدوس
سندھ کے علاقے ڈہرکی ضلع گھوٹکی کی نو مسلم بہنیں اپنی جان اور ایمان کے تحفظ کیلئے بہاولپور کے بعد اب اسلام آباد پہنچ گئی ہیں۔ انہوں نے رائو عبدالرحیم ایڈووکیٹ کی وساطت سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ توقع ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ آج (منگل کو) اس درخواست کی سماعت کریں گے۔ نو مسلمہ بہنوں آسیہ (ہندو نام روینا) اور نادیہ (ہندو نام روینا) بنت ہری لال اور ان کے شوہر صفدر علی اور برکت علی نے سات فریقین کے خلاف رٹ دائر کی ہے۔ نومسلمہ لڑکیوں کے وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’دونوں لڑکیاں، جن کی عمریں اٹھارہ سے بیس سال ہیں، شدید خوفزدہ ہیں اور یہی خوف ان کے ڈہرکی سے پہلے بہاولپور اور اب اسلام آباد آنے کا سبب بنا۔ ان دونوں کے شوہر بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ان چاروں سے میری ملاقات میرے دفتر میں ہوئی، جہاں یہ لوگ اپنے کیس کے سلسلے میں آئے تھے‘‘۔
تحفظ ناموس رسالت لائرز فورم کے چیئرمین اور نو مسلم لڑکیوں کے وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک جانب ان نو مسلم لڑکیوں کا میڈیا ٹرائل ہورہا ہے کہ یہ کم عمر ہیں اور دس بارہ سال کی ہیں۔ دوسری جانب یہ الزام تھوپا جارہا ہے کہ ان سے زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’’میں خود زبردستی مذہب تبدیل کرانے کے خلاف ہوں۔ لیکن اس کیس میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ دونوں لڑکیاں اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہیں، لیکن پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی و ہندو کونسل کے سربراہ رمیش کمار اور بعض ادارے انہیں زبردستی ہندو بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ رمیش کمار میرے پاکستانی بھائی ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کوئی زیادتی کرے تو میں پاکستانی ہونے کے ناطے ان کا ساتھ دوں گا۔ لیکن مذاہب کی تفریق پیدا کر کے اس طرح کی صورت حال پیدا کرنا افسوسناک ہے۔ جہاں تک زبردستی شادی کرانے کا تعلق ہے تو اس پر بھی میری ان لڑکیوں سے بات ہوئی ہے۔ مسلمان ہونے کے بعد کیا وہ کسی نا محرم گھر میں رہتیں۔ یتیم خانوں اور دارالامان کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے۔ ان حالات میں انہوں نے اپنے علاقے کے دو مسلم نوجوانوں سے اپنی مرضی سے شادی کی۔ دونوں بہنیں کہتی ہیں کہ ہم نے ان کو بلا کر ان سے شادی کی ہے۔ تاہم اس معاملے پر خصوصاً ہمارے میڈیا کا کردار انتہائی منفی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے نجی چینلز کی اس بلاوجہ کی چیخ و پکار کے سبب پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو بھی فریق بنایا ہے۔ جبکہ وفاقی وزارت داخلہ، حکومت سندھ، آئی جی سندھ، آئی جی پنجاب، پاکستان ہندو کونسل کے صدر و رکن قومی اسمبلی رمیش کمار، ان لڑکیوں کے والد ہری لال اور آئی جی اسلام آباد کو بھی اس کیس میں فریق بنایا گیا ہے‘‘۔ راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پاکستانی نجی چینلز کی بے احتیاطی کی وجہ سے بھارتی وزیر خارجہ کو بھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ ’’دونوں لڑکیاں اور ان کے شوہر سخت خوفزدہ ہیں۔ یہ چاروں بالکل اَن پڑھ ہیں اور ان کے خاندانوں کے بھی شناختی کارڈ نہیں ہیں، نہ ہی اسکول یا تاریخ پیدائش کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ دو روز قبل جب میں نے اپنے دفتر میں بڑی بہن سے پوچھا کہ جب بینظیر بھٹو کا قتل ہوا، تو تہماری عمر کتنی تھی؟ تو اس نے قریب بیٹھے میرے بیٹے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس جتنی عمر تھی۔ میرا بیٹا آٹھ نو سال کا ہے اور چوتھی کلاس میں پڑھتا ہے۔ جبکہ بینظیر بھٹو کے قتل کو بارہ سال گزر چکے ہیں، گویا اس لڑکی کی عمر اب بیس اکیس سال ہے۔ اس لئے ان لڑکیوں کے کم عمر ہونے کا دعوی بالکل غلط ہے، ظاہری طور پر بھی ان کے عمریں 18/20 سال لگتی ہیں۔ دونوں لڑکیاں اور ان کے شوہر بھی اَن پڑھ ہیں۔ وہ اردو یا سندھی زبان میں اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست پر انہوں نے اپنے انگوٹھوں کے نشان ثبت کئے ہیں۔ انہوں نے اپنی درخواست میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین کا عارضی ایڈریس تحریر کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ بھی اس سے آگاہ نہیں ہیں کہ اسلام آباد میں ان کا میزبان کون ہے یا وہ کس کے گھر رہ میں قیام پذیر ہیں۔
واضح رہے کہ ان لڑکیوں کے معاملے میں بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس معاملے کا نوٹس لینے اور لڑکیوں کو بازیاب کرانے کا حکم دیا تھا، جنہوں نے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کی۔ البتہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھارتی وزیر خارجہ کو سخت الفاظ میں جواب دیتے ہوئے ان کے بیان کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا اور ان کی توجہ گڑ گاؤں نئی دہلی میں ایک مسلمان خاندان پر آر ایس ایس کے غنڈوں کے ظلم و ستم کی جانب مبذول کرائی۔ امکان ہے کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوگی۔ ان نوبیاہتا جوڑوں کے وکلا راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ اور محمد عمیر بلوچ ایڈووکیٹ کو عدالت سے ان کے تحفظ کی ضمانت ملنے کی توقع ہے۔ گیارہ صفحات پر مشتمل رٹ میں انہوں نے اپنی جان اور اپنے عقیدے کے تحفظ کی استدعا کی ہے۔ جبکہ پیمرا کو اس بات کا پابند بنانے کی درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان کے خلاف بے بنیاد اور غلط خبروں کا سلسلہ بند کرائے۔
٭٭٭٭٭