تعلیم کے فروغ کے لئے افغان طالبان کی خصوصی مہم

محمد قاسم
افغان طالبان نے امریکہ سے مذاکرات میں پیش رفت کے بعد ملک میں تعلیم کے فروغ کیلئے خصوصی مہم شروع کردی ہے۔ طالبان قیادت نے افغان عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ یکم اپریل سے شروع ہونے والے تعلیمی سال سے اپنے بچوں اور بچیوں کو اسکولوں میں داخل کرائیں۔ جبکہ طالبان کی جانب سے ملک بھر میں 800 اسکول کھولنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ افغان طالبان کے تعلیمی کمیشن کی جانب سے ’’امت‘‘ کو بجھوائے گئے اعلامیہ کے مطابق افغان طالبان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے پانچ سال تک کے لڑکے اور لڑکیوں کو اسکولوں میں داخل کرائیں۔ تاہم اگر اس حوالے سے کوئی مشکلات ہوں تو طالبان کے تعلیمی کمیشن کو آگاہ کریں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت، این جی اوز اور پرائیویٹ اسکول مالکان، افغان بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے زیورسے آراستہ کرنے کیلئے یکم اپریل کے بعد ایک بڑی مہم شروع کریں، طالبان ان کی ہر ممکن مدد کریں گے، تاکہ زیادہ سے زیادہ بچیوں اور بچوں کو اسکولوں میں داخل کرایا جا سکے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اگر ممکن ہو تو پرائمری کلاسوں میں بچوں اور بچیوں کے علیحدہ سیکشن بنائے جائیں۔ تاہم چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کیلئے لازماً علیحدہ کلاسز بنائی جائیں۔ اعلامیہ کے مطابق افغان طالبان نے عوام سے درخواست کی ہے کہ صبح کے وقت اپنے بچوں کو اسکولوں میں پڑھائیں اور دوپہر کو چھٹی کے بعد انہیں قرآن کی تعلیمات سے آراستہ کرنے کیلئے مساجد اور مدارس میں بٹھائیں۔ افغان طالبان خصوصی طور پر علما سے درخواست کریں گے کہ مساجد و مدارس میں بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دی جائے۔ افغان طالبان کی جانب سے ’’خوشحال اور آباد افغانستان‘‘ کے نام سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ بچیوں کو صبح سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں، جبکہ دوپہر کو مدارس میں داخل کرایا جائے تاکہ وہ عصری تعلیم کے ساتھ دینی علوم بھی حاصل کرسکیں۔ طالبان نے افغان وزارت تعلیم سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچوں اور بچیوں کو اسکولوں میں داخل کرنے کیلئے خصوصی مہم شروع کریں۔ اس سلسلے میں طالبان کے تعلیم و تربیت کمیشن ان کی مدد کریں گے۔ اعلامیہ میں کہا ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کے تمام ڈائریکٹرز، سربراہوں، اساتذہ اور دیگر اسٹاف سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ قابض افواج کی بمباری سے تباہ ہونے والے تعلیمی اداروں کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ جبکہ افغان طالبان بھی سیاسی فتح کے ساتھ تعلیمی فتح حاصل کرنے کیلئے افغانستان کے طول و عرض میں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے اسکول کھول رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے شمال میں طالبان 200 سے زائد اسکول کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جبکہ پورے ملک میں 800 سے زائد اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے اسکول امریکی بمباری سے تباہ ہوگئے تھے یا جنگجو کمانڈروں نے ان پر قبضہ کر رکھا ہے۔ افغان طالبان نے تمام جنگی سالاروں کو انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ یکم اپریل سے قبل ان اسکولوں کا قبضہ چھوڑ دیں اور جو اسکول تباہ ہوئے ہیں، انہیں طالبان دوبارہ تعمیر کرکے حکومت کے حوالے کریں گے۔ طالبان نے کابل میں واقع پرائیویٹ اسکولز کے مالکان کو بھی متنبہ کیا ہے کہ وہ صرف امیر لوگوں کے بچوں کو داخلہ نہ دیں بلکہ غریب بچوں کیلئے بھی کوٹہ مختص کریں۔ افغان طالبان نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں والدین کو متنبہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے بچوں اور بچیوں کو اسکولوں میں داخل کرانے سے گریز کیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابقق افغان طالبان کی جانب سے اس اعلان کے بعد ملک بھر کے اسکولوں میں بڑے پیمانے پر داخلوں کی توقع کی جارہی ہے اور امید ہے کہ لاکھوں بچے تعلیم کا سلسلہ شروع کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان کے دور حکومت میں نظام تعلیم کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کو شدید تحفظات تھے۔ تاہم اب طالبان نے امریکہ کو شکست دے کر نہ صرف سیاسی و اخلاقی برتری حاصل کرلی ہے بلکہ افغانستان کو تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے منصوبہ بندی بھی شروع کر دی ہے۔ طالبان نے آئندہ پانچ برسوں میں لاکھوں بچوں کو اسکولوں میں بجھوانے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس حوالے سے تعلیمی کمیشن بھی قائم کیا ہے، جو یکم اپریل سے یکم مئی تک افغان بچوں کے داخلوں کی نگرانی کرے گا۔ طالبان کی جانب سے ملک کو آباد اور خوشحال بنانے کیلئے شروع کردہ اس مہم میں افغان عوام سے خصوصی مدد اور تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ ذرائع کے بقول قوی امکان ہے کہ اس سال افغانستان میں قیام امن کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر تعلیمی سرگرمیاں بھی بحال ہوں گی۔ اگر طالبان نے لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے درسگاہیں قائم کی تو یہ ان کی نہ صرف بڑی کامیابی ہو گی بلکہ ان کی پالیسیوں میں تبدیلی کا بھی واضح ثبوت ہوگا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment