حضرت علی المرتضیٰؓ نے اپنے بیٹے حضرت محمد بن حنفیہؒ کو ان تمام جنگوں میں ساتھ رکھا، جن میں خود شریک ہوئے، اس سے حضرت محمد بن حنفیہؒ نے والد کی قائدانہ صلاحیت اور جنگی مہارت سے بہت کچھ سیکھا۔
کسی جنگ میں نہ تو ان کو کوئی شکست ہوئی اور نہ کبھی انہوں نے جنگ کے ارادے میںسستی کا اظہار کیا۔
ایک دفعہ ان سے سوال کیا گیا: ’’کیا بات ہے آپ کے ابا جان نے آپ کو خطرناک جنگوں میں شریک کیا، جب کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو جنگوں سے الگ تھلگ رکھا؟‘‘
فرمایا: ’’اس لئے کہ وہ دونوں میرے بھائی اپنے باپ کی آنکھیں اور میں ان کا ہاتھ تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کی حفاظت کیا کرتے تھے۔‘‘
کتنا بہترین جواب دیا کہ نہ معلوم سوال کرنے والے نے کس غلط نیت سے سوال کیا ہو، لیکن جواب دینے والے نے کتنا حکمت سے جواب دیا۔
جنگ صفین کے بعد جب حضرت علیؓ ایک بدبخت کے ہاتھوں شہید ہوئے، تو امت مسلمہ حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کی خلافت پر متفق ہوگئی، حضرت محمد بن حنفیہؒ نے بھی اس وقت بہت ہی زیادہ سمجھداری سے اور صبر سے کام لیا کہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو جائے، اختلافات ختم ہو جائیں، اس لئے انہوں نے حضرت معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
حضرت معاویہؓ کو بھی ان کی بیعت کے بعد ان پر بہت زیادہ اطمینان ہوگیا۔ اس لئے انہوں نے حضرت محمد بن حنفیہؒ کو اپنے پاس دارالحکومت بلایا، جب وہ حضرت امیر معاویہؓ سے ملنے کے لئے دارالحکومت دمشق تشریف لائے تو آپؒ کو شاہی اعزاز و اکرام سے نوازا گیا۔ آپؒ کئی مرتبہ امیر معاویہؓ کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے۔
رومی کے ساتھ کشتی لڑنا
ایک مرتبہ روم کے بادشاہ نے حضرت معاویہؓ کو خط لکھا، جس میں تحریر تھا:
’’ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ بادشاہ ایک دوسرے کو خیریت معلوم کرنے کے لئے پیغامات بھیجتے ہیں اور قیمتی تحائف کے تبادلے سے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اور بعض اوقات اپنے ملک کی عجیب و غریب اور قیمتی اشیاء کے تبادلے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ یہ دستور میرے اور آپ کے درمیان بھی رائج ہو؟
حضرت امیر معاویہؓ نے قیمتی تحائف اور دل پسند اشیاء کے لئے رضا مندی کا اظہار کردیا۔
روم کے بادشاہ نے اپنے ملک کے دو عجیب و غریب قسم کے آدمی حضرت معاویہؓ کی طرف بھیجے۔
ایک بہت لمبا تڑنگا تھا، قد کی لمبائی حیرت انگیز تھی، یوں معلوم ہوتا جیسے جنگل میں ایک انتہائی لمبا درخت کھڑا ہے یا کوئی اونچا مینار ہے۔
اور دوسرا بہت زیادہ طاقت ور تھا، اسے دیکھ کر یوں معلوم ہوتا جیسے کوئی چیر پھاڑ کرنے والا درندہ کھڑا ہے، ان کے پاس روم کے بادشاہ کا ایک خط بھی تھا، جس میں یہ لکھا ہوا تھا:
’’کیا آپ کے ملک میں لمبائی اور طاقت کے لحاظ سے ان جیسا کوئی شخص ہے؟‘‘
حضرت معاویہؓ یہ خط پڑھ کر حضرت عمرو بن عاصؓ سے فرمانے لگے: اتنا لمبا آدمی بل ہ اس سے بھی دو قدم آگے ہمارے پاس ہے اور وہ ہے قیس بن سعد بن عبادہ۔ رہا اس دوسرے شخص جیسا طاقتور تو آپ بتایئے وہ کون ہو سکتا ہے؟
حضرت عمرو بن عاصؓ نے فرمایا: ہمارے ملک میں دو شخص طاقت میں اس سے بڑھ کر ہیں۔ ایک محمد بن حنفیہؒ اور دوسرے ابن زبیرؓ لیکن یہ دونوں دارالحکومت سے بہت دور رہتے ہیں۔
حضرت معاویہؓ نے فرمایا: محمد بن حنفیہ ہم سے زیادہ دور نہیں۔
حضرت عمروبن عاصؓ نے کہا: کیا خیال ہے وہ اپنے مرتبہ و مقام کے اعتبار سے لوگوں کے سامنے ایک رومی شخص کے ساتھ کشتی لڑنے کے لئے تیار ہو جائیںگے؟
حضرت معاویہؓ نے حضرت قیس بن سعد اور حضرت محمد بن حنفیہؒ کو بلایا، جب مقابلے کے لئے مجلس منعقد کی گئی تو حضرت قیس بن سعدؒ نے دھوتی باندھ کر پاجامہ اتارا اور اس رومی شخص کے سامنے پھینک دیا۔ ( جس کا مطلب یہ تھا کہ اس پاجامہ سے ہی اپنے قد ناپ لو اگر ہمت ہے تو مقابلہ کے لئے تیار ہو جاؤ ) اور اس سے کہا: یہ پہنو!
اس نے پاجامہ پہنا جو اس کے گلے تک پہنچ گیا، اہل مجلس یہ منظر دیکھ کر ہنس دیئے، حضرت قیس بن سعدؒ کا قد اس سے کہیں زیادہ لمبا تھا، رومی یہ دیکھ کر بہت شرمندہ ہوا۔ حضرت محمد بن حنفیہؒ نے ترجمان سے کہا:
’’میرے ( مقابلے کے لئے ) آنے والے رومی سے کہو، اگر وہ چاہے تو بیٹھ جائے اور میں کھڑا رہوں اور وہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے۔ میں اسے بزور بازو کھڑا کرنے کی کوشش کروں گا اور وہ مجھے بزور بازو بٹھانے کی کوشش کرے گا۔ اور اگر وہ چاہے تو خود کھڑا ہو جائے، میں بیٹھ جاتا ہوں (اس صورت میں وہ مجھے کھڑا کرنے کی کوشش کرے گا، جب کہ میں اسے بٹھانے کی کوشش کروں گا)۔‘‘
اس طرح ہم دونوں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔
رومی نے بیٹھنے کو ترجیح دی۔
حضرت محمد بن حنفیہؒ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے آن واحد ( ایک ہی جھٹکے ) میں کھڑا کر دیا لیکن رومی حضرت محمد بن حنفیہؒ کو بٹھانے میں ناکام رہا۔
رومی کے سینے میں قومی غیرت ابھر گئی۔ اس نے کھڑا ہو کر مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور حضرت محمدبن حنفیہؒ نے بیٹھ کر اس کے ہاتھ کو ایسا زوردار جھٹکا دیا، جس سے وہ زمین پر آلگا اور ایسا الٹ پلٹ ہونے لگا، جیسے اس کا بازو کندھے سے الگ ہوگیا ہو۔ مقابلہ ختم ہو گیا۔ دونوں رومی شرمندہ و پشیمان اپنے بادشاہ کے پاس اپنا سا منہ لے کر واپس لوٹ گئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭