معارف القرآن

معارف و مسائل
کی لا یکون دولۃ… دولۃ بضم دال اس مال کو کہنا جاتا ہے جس کا آپس میں لین دین کیا جائے۔ (قرطبی) معنی آیت کے یہ ہیں کہ (مال فئی کے مستحقین اس لئے متعین کردیئے) ’’تاکہ یہ مال تمہارے مالداروں اور توانگروں میں گردش کرنے والی دولت نہ بن جائے۔‘‘
اس میں اشارہ اس رسم جاہلیت کو مٹانے کی طرف ہے، جس میں اس طرح کے تمام اموال پر رئیس خود قابض و مالک ہو جاتا تھا۔ غریبوں اور مسکینوں کے حق کا اس میں کوئی حصہ نہ رہتا تھا۔
اکتناز دولت پر اسلامی قوانین کی ضرب کاری:
حق تعالیٰ رب العالمین ہے، اس کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے انسانی ضروریات میں تمام انسانوں کو یکساں حق ہے۔ اس میں مومن و کافر کا بھی فرق نہیں کیا گیا۔ خاندانی اور طبقاتی امیر و غریب کا کیا امتیاز ہوتا۔ حق تعالیٰ نے دنیا میں تقسیم دولت کا بہت بڑا حصہ جو انسان کی فطری اور اصلی ضروریات پر مشتمل ہے، اس کی تقسیم خود اپنے دست قدرت میں رکھ کر اس طرح فرمائی ہے کہ اس سے ہر طبقہ ہر خطہ ہر کمزور و قوی یکساں فائدہ اٹھا سکے۔ ایسی اشیاء کو رب تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے عام انسانی دستبرد اور قبضہ و تسلط سے مافوق بنا دیا ہے، کہ کسی کی مجال نہیں کہ اس پر ذاتی قبضہ جما سکے۔ ہوا، فضائ، آفتاب، ماہتاب اور سیاروں کی روشنی، فضاء میں پیدا ہونے والے بادل، ان کی بارش، یہ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے بغیر انسان تھوڑی دیر بھی زندہ نہیں رہ سکتا، ان سب کو قدرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے ایسا وقف عام بنادیا کہ کوئی بڑی سے بڑی حکومت و طاقت بھی اس پر قبضہ نہیں جما سکتی، یہ چیزیں خدا کی مخلوق کو ہر جگہ یکساں ملتی ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment