گناہ کی بے لذت زندگی

یہ واقعہ بھی شیخ محمد عبد العزیز المسند نے اپنی کتاب میں واقعہ نقل فرمایا ہے، جو دولت و شہرت کے چکر میں اپنے والدین، عزیز و اقارب کو بھول کر گائوں سے شہر بھاگنے والی ایک لڑکی کی عبرت انگیز داستان ہے:
’’نورین آج بہت افسردہ تھی، وہ آئینے کے سامنے بیٹھی اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی اور اپنے حسن کو ڈھلتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی، اس نے دنیا کی تمام آسائشیں حاصل کر لی تھیں۔ کار، بنگلہ، بینک بیلنس، دنیا کی ہر قسم کی سہولتیں اسے میسر تھیں، لیکن جس چیز سے وہ محروم تھی وہ تھا ذہنی سکون اور شوہر، بچوں کی محبت اور قربت۔ آج وہ سوچ رہی تھی کہ کاش میں ماڈل گرل نہ ہوتی۔
میں صرف اور صرف ایک معصوم سیدھی سادی دیہاتی لڑکی ہی رہتی اور آج کہیں میں کھیتوں میں اپنے والدین کے ساتھ کام کر رہی ہوتی تو کتنی پرسکون زندگی گزارتی۔ میں اپنے شوہر کے لئے کھیتوں میں کھانا لے کر جاتی اور اس کے ساتھ گندم کی کٹائی کرتی، روئی چنتی لیکن میری بدقسمتی کہ میں ایک بڑے شہر میں آکر ایک ماڈل گرل بن گئی اور اشتہارات کی زینت بنتی رہی۔ پیسہ کماتی رہی اور یوں زندگی کا قیمتی وقت گزرتا گیا۔
مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ میرا حسن ایک دن ختم ہوجائے گا اور میرا روزی کا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ پیسہ ہونے کے باوجود ذہنی سکون بھی میسر نہیں ہے۔ نہ اپنے بچوں کے ساتھ کھانا کھانے اور ان سے باتیں کرنے کا وقت تھا اور نہ ہی گھر میں اپنے شوہر کو وقت دے سکی۔
نورین ایک گائوں میں رہتی تھی، ابھی آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ نورین کی سہیلی شمیلہ بھی اس کی ہم جماعت تھی، لیکن شمیلہ نے نویں جماعت میں شہر کے اسکول میں داخلہ لے لیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد شمیلہ اپنی سہیلی نورین کو بھی شہر لے گئی۔ نورین ایک سیدھی سادھی دیہاتی لڑکی تھی لیکن شمیلہ تیز اور شوخ لڑکی تھی۔ شمیلہ کی شکل و صورت اچھی تھی، جب وہ بھڑکیلے ملبوسات پہنتی تو اس کے حسن میں اضافہ ہو جاتا تھا۔
شمیلہ کو شروع سے ہی فلمی ہیروئن بننے کا شوق تھا۔ شمیلہ کی ایک سہیلی سمیرا ٹیلی ویژن کے اشتہارات میں کام کرتی تھی۔ سمیرا نے شمیلہ کو ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں ایک اشتہار کے لیے متعارف کرایا تو اس کے بعد شمیلہ نے باقاعدہ ماڈلنگ کا پیشہ اختیار کرلیا۔ اب وہ عیش کرتی تھی۔
اس نے پڑھنا چھوڑ دیا اور نورین کو بھی اسی پیشہ کے متعلق ہر وقت باتیں بتاتی رہتی کہ تم بھی دولت والی ہوجائو گی، قدرت نے تمہیں خوبصورت بنایا ہے، اپنے حسن سے فائدہ اٹھائو اور ماڈلنگ شروع کر دو، پھر دیکھنا تمہارے دن کیسے پھرتے ہیں۔ آخر نورین شمیلہ کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئی۔ ویسے وہ تھی بھی سیدھی سادھی اور معصوم۔ شمیلہ اسے ایک دن ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کے ڈائریکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈائریکٹر کو بھی ایسے ہی خوبصورت چہرے کی ضرورت تھی اور ایک سگریٹ کمپنی کے اشتہار میں نورین کو ایڈ کیا گیا۔
دوسرے دن نورین نے اپنے آپ کو ٹی وی پر ایک سگریٹ کے اشتہار میں دیکھا تو بڑی خوش ہوئی۔ پھر اس کے بعد نورین کی مصروفیت بڑھ گئی۔ وہ اپنے بوڑھے والدین کو بھول گئی۔ اسے عمر گزرنے اور جوانی ڈھلنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ وہ ہر وقت شوٹنگ اور ماڈلنگ کے کاموں میں مصروف رہنے لگی اور شہر کی خوبصورت ترین اور مہنگی ماڈل گرل بن گئی۔ لیکن آج اسے احساس ہوا تھا کہ میں نے جو کیا بہت برا کیا۔ آج اسے ذہنی سکون اور والدین کی محبت کی قیمت کا پتہ چلا تھا۔ جب اس کی جوانی، اس کا حسن ختم ہوگیا تھا اور اسے اپنے اشتہار کے لیے بک کرنے کوئی نہیں آتا تھا۔ آج اس کی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ خدا کرے کوئی لڑکی یہ کام نہ کرے کیونکہ جو سکون گھریلو کام کاج میں ہے، وہ ماڈلنگ میں کہاں۔ جو سکون باپردہ زندگی اور عبادت میں ہے، وہ ماڈلنگ میں نہیں۔ خدا کرے کسی بھی ماں اور کسی بھی باپ کی بیٹی اس زہریلے پیشے کے قریب بھی نہ جائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment