ضیاء الرحمٰن چترالی
عربوں کی ذہانت اور بے مثال قوت حافظے کی کئی داستانیں مشہور ہیں۔ ان دنوں حیرت انگیز یادداشت کے مالک ایک عراقی بچے کی ہر جگہ دھوم مچی ہوئی ہے۔ صادق علی الغریفی کی عمر چھ برس ہے۔ مگر اسے عرب کے مشہور شعراء کے ایک ہزار سے زائد اشعار یاد ہیں۔ شعر گوئی کے ساتھ قدرت نے اس بچے کو خطابت کا بھی عمدہ ملکہ عطا کیا ہے۔ عراقی شعراء نے صادق علی الغریفی کو ’’الجواہری الصغیر‘‘ (چھوٹا الجواہری) کا لقب دیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق عراق بھر میں ہونے والے مشاعروں میں یہی ننھا شاعر محفل لوٹ لیتا ہے۔ نامی گرامی شعراء کو لوگ اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی اس بچے کو دیتے ہیں۔ صادق علی سے ملنے والا ہر شخص اس بچے کی خداداد صلاحیتوں پر اسے داد دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ صادق علی کو درجنوں اشعار پر مشتمل کئی طویل قصیدے ازبر ہیں۔ محافل میں جب وہ اپنے مخصوص انداز میں یہ اشعار سناتا ہے تو لوگ ہمہ تن گوش ہوکر اسے سنتے ہیں۔ اس لئے اس ننھے ادیب کو عراق میں ہونے والے بڑے بڑے مشاعروں میں شرکت کی خصوصی دعوت دی جاتی ہے۔ بلکہ صادق علی نے اسی وقت مشاعروں میں شرکت شروع کی تھی، جب اس کی عمر صرف تین برس تھی۔ ابتدا اس نے بصرہ شہر میں ہونے والے مربد فیسٹیول میں شرکت کرکے کی تھی۔ جہاں اس نے مرحوم عراقی شاعر بدر شاکر السیاب کا مشہور قصیدہ سنایا تھا۔ جسے سن کر وہاں موجود شعراء و ادباء ورطہ حیرت میں پڑ گئے تھے۔ اسی وقت صادق علی کو ’’الجواہری الصغیر‘‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ محمد مہدی الجواہری عراق کا مشہور شاعر گزرا ہے۔ صادق علی الغریفی کا والد علی الغریفی خود بھی شاعر اور صحافی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چھوٹے جواہری نے اپنا ادبی سفر تین برس کی عمر میں شروع کیا تھا۔ مذکورہ فیسٹیول کے بعد اس نے اپنے آبائی شہر سوق الشیوخ کے ایک بڑے مشاعرے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ سوق الشیوخ جنوبی عراق کے صوبے ناصریہ میں واقع ہے۔ علی الغریفی کا کہنا تھا کہ ڈھائی برس کی عمر میں ہی مجھے اندازہ ہوا کہ اس بچے کی قوت حافظہ بہت مضبوط ہے۔ یہ ہر چیز کو سن کر یاد کرلیتا ہے۔ اس نے یوٹیوب سے ادبی ڈراموں کے طویل ڈائیلاک بھی یاد کرلیے ہیں۔ جن زمانہ جاہلیت کے مشہور شاعر عنترہ بن شداد پر بنے ڈرامہ بھی شامل ہے۔ اب تک اس نے ایک ہزار سے زائد اشعار ازبر کرلیے ہیں، جن میں عراقی شعراء کے ساتھ قدیم شعراء کے اشعار بھی شامل ہیں۔ حالانکہ بعض قصائد ایسے بھی ہیں، جن کے الفاظ اور قوافی تقریباً ایک جیسے ہیں۔ الغریفی کے بقول صادق علی عام بچوں کی طرح رٹا لگا کر یاد نہیں کرتا۔ بلکہ پہلے وہ اشعار کی کتاب میں سے کسی ایک قصیدے کو منتخب کر لیتا ہے۔ پھر وہ چند بار غور سے پڑھنے کے بعد وہ درست اعراب و تلفظ کے ساتھ خود ہی اسے یاد ہو جاتا ہے۔ صادق علی کو صرف شعر یاد کرنے کا ملکہ حاصل نہیں، بلکہ وہ بہترین خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی نقالی بھی کر لیتا ہے۔ جبکہ وہ ایک بہترین کارٹونسٹ بھی ہے۔ عراقی حکومت کی جانب سے ہونے والے اسکولوں کے تقریری مقابلوں میں پورے ملک میں پہلی پوزیشن حاصل کرلیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنی کلاس میں بھی ہمیشہ اول آتا ہے۔ گزشتہ دنوں عراقی صدر برہم صالح نے اس بچے کو بلا کر اسے اعزاز سے نوازا ہے۔ صادق علی صدر برہم کے سامنے بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔دوسروں کے اشعار یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اب وہ خود بھی شاعر بن چکا ہے۔ ایک عراقی ادیب و شاعر مصطفی سعیدی کا کہنا ہے کہ اس بچے نے مجھے اس وقت حیرت میں ڈال دیا تھا، جب اس کی عمر صرف چار برس تھی۔ جب اس نے مجھ سے شعر کے بارے میں گفتگو کی تو مجھے ایسا لگا کہ کوئی بڑا پرانا شاعر شعر کے مختلف اصناف اور باریکیوں پر روشنی ڈال رہا ہے۔ اس وقت ہی اس بچے نے عنترہ، مہدی الجواہری اور دوسرے شعراء کے کئی قصائد مجھے سنائے تھے۔ شعرا اور شعراء کے بارے میں اس کی معلومات پر میں حیران رہ گیا تھا۔عراق کے سینئر شعراء بھی اس بچے کی شعر فہمی و شعر گوئی کے قائل ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عراق کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ اس کے بچے فصاحت و بلاغت اور شعرو ادب میں کامل دسترس رکھتے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭