نذر الاسلام چودھری
شام کے علاقے ’’بن غوز‘‘ میں داعش کے آخری گڑھ کو فتح کرنے والی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا ایس ڈی ایف نے تصدیق کی ہے کہ ان کے پاس داعش کے ڈھائی ہزار سے زیادہ یورپی جنگجوئوں سمیت نو ہزار غیر ملکی جنگجو گرفتار ہیں۔ تاہم ان کو اپنے پاس زیادہ دیر تک حراست میں نہیں رکھا جاسکتا۔ امریکی نیوز چینل سی این این نے بتایا ہے کہ ان ہزاروں غیر ملکی قیدیوں کی اسکروٹنی عراقی و شامی کرد حکام کررہے ہیںکہ کس جنگجو مرد و خاتون کا کس ملک سے تعلق ہے؟ ڈیلی سن کے مطابق مزید پتا چلا ہے کہ ان داعش جنگجوئوں میں ایک ہزار سے زیادہ غیر ملکی خواتین بھی شامل ہیں۔ ان خواتین کی اکثریت واپس اپنے ممالک جانے سے گریزاں ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کو عراق میں رہنے دیا جائے۔ جب کہ کچھ خواتین جن میں بلجیم کی جسیندرا بولڈارت سمیت امریکی و برطانوی خواتین شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے اور سدھار کیلئے ان کو اپنے ممالک میں قبول کیا جانا چاہئے۔ اپنے ملک واپسی کی خواہش رکھنے والی ایسی ہی ایک ’’داعشی دلہن‘‘ آئر لینڈ کی خاتون فوجی لیزا اسمتھ بھی ہیں جو آئرش آرمی ایئر بورن ڈویژن میں تھیں۔ لیکن بھاگ کر شام آگئی تھیں اور داعش کے ایک جنگجو سے انہوں نے بیاہ رچا لیا تھا۔ آج اگرچہ ان کے دو بچے بھی ہیں لیکن وہ واپس آئر لینڈ جانا چاہتی ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا ایس ڈی ایف کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور کینیڈا سمیت متعدد یورپی ممالک سے رابطہ کرکے اپنے اپنے جنگجوئوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن ان حکومتوں نے انہیں ٹکا سا جواب دیکر ان جنگجوئوں کو واپس لینے سے انکار کردیا ہے جس کے بعد ان جنگجوئوں کو قید رکھنے،کھانا کھلانے اور مقدمات کے حوالہ سے مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ کیونکہ ایس ڈی ایف کے پاس یا عراقی حکومت کے پاس اس ضمن میں فنڈز نہیں ہیں۔ جبکہ ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کئے جانے والے غیر ملکی مرد و خواتین جنگجوئوں اور ان کے بچوں کو کرد ملیشیا کے چار سے زیادہ حراستی کیمپوں میں قید رکھا گیا ہے۔ برطانوی میڈیا نے بتایا ہے کہ کرد کیمپوں میں قید سیاہ برقعوں میں ملبوس داعشی خواتین سخت پردے اور کردار کے لحاظ سے مضبوط ہیں۔ تین دن پہلے سینکڑوں داعشی خواتین نے ایک داعشی لڑکی سے دست درازی میں ملوث کرد محافظ کو پیٹا تھا اور کرد محافظوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس موقع پر نعرے لگانے والی ’’داعشی دلہنوں‘‘ نے کرد ملیشیا کو خبر دار کیا تھا کہ داعشی خواتین کو مال غنیمت سمجھنے والوں کے سر قلم کردئے جائیں گے۔ ادھر امریکی میڈیا نے سوال اٹھایا ہے کہ جب داعش کے ٹھکانوں کا خاتمہ ہوچکا ہے تو اس کا سربراہ البغدادی کہاں ہے؟ اس ضمن میں امریکی اور روسی انٹیلی جنس نے مختلف مفروضات قائم کئے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ داعش کا کمانڈر انچیف اور سربراہ ابو بکر البغدادی اس وقت بھی بھیس بدل کر عراق میں چھپا ہوا ہے اور اس کی تلاش کیلئے متعدد ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ لیکن تا حال یہ انٹیلی جنس اور سکیوریٹی اسپیشل ٹیمیں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ یاد رہے کہ 2014ء میں داعش کی خلافت کا اعلان کرنے والا سینتالیس سالہ ابو بکر البغدادی اب تک کسی کے بھی ہاتھ نہیں آیا ہے ہیں۔ اس پر 25 ملین ڈالر کا انعام بھی رکھا گیا ہے۔ برطانوی جریدے ڈیلی سن کا عراقی انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے دعویٰ ہے کہ داعشی خلیفہ البغدادی کے ساتھ تین ہمراہی ہوتے ہیں جن میں اس کا بھائی جمعہ، اس کا باڈی گارڈ اور ڈرائیور عبد اللطیف الجبوری اور اس کا پیغام رساں سعود الکرد شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ چھوٹا س گروپ البغدادی کو لے کر شام کے ’’بادیہ‘‘ نامی ریگستان میں جاچکا ہے۔ خلیجی نیوز پورٹل الجزیرہ کے مطابق امریکہ نواز ملیشیا نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تمام غیر ملکی جنگجوئوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک عالمی عدالت انصاف کا قیام عمل میں لائے۔ تاکہ ان نو ہزار سے زیادہ جنگجوئوں کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے۔ لیکن امریکا سمیت تمام یورپی ممالک نے عالمی و غیر ملکی جنگجوئوں کی واپسی کے حوالے سے واضح پالیسی کا اعلان کیا ہے کہ ان تمام جنگجوئوں کی شہریت اور پاسپورٹ منسوخ کئے جاچکے ہیں۔ ان تمام جنگجوئوں کو معاشرے میں ’’انتہا پسندی‘‘ کے ممکنہ پھیلائو کے خدشات کے سبب اب واپس نہیں کیا جائے گا۔ ٭
٭٭٭٭٭