مضر صحت انجکشن بیچنے والوں نے عدالتی حکم ہوا میں اڑا دیا

عمران خان
سپریم کورٹ کی عائد کردہ پابندی کے باوجود بھینس کے دودھ کی پیداوار بڑھانے والا مضر صحت انجکشن ’’سوماٹیک‘‘ کا کھلے عام استعمال اور خرید و فروخت جاری ہے۔ غیر قانونی مضر صحت استعمال اور سپلائی کرنے والوں نے خرید و فروخت کیلئے واٹس ایپ کے گروپ قائم کرلئے ہیں۔ ان گروپوں میں باڑہ مالکان اور ان کے نمائندے شامل ہیں جو ان واٹس ایپ گروپوں میں اپنے مطلوبہ آرڈر بھیجتے ہیں اور اسی گروپ میں انجکشن سپلائی کرنے والے ڈیلرز بھی موجود ہیں جو دستیاب انجکشن کی کھیپ ان باڑہ مالکان تک پہنچاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بھینس کالونی اور اطراف کے 3 ہزار سے زائد چھوٹے بڑے باڑوں میں کینسر و دیگر موذی امراض کا سبب بننے والے اس انجکشن کی سپلائی جاری ہے۔ پہلے ایک ہزار روپے میں دستیاب انجکشن اب بھینس کالونی کے میڈیکل اسٹورز پر 2400 روپے میں دھڑلے سے بیچا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سوما ٹیک انجکشن کی سپلائی و استعمال کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسٹم ایئر پورٹ کلیکٹوریٹ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف گزشتہ تین ماہ میں مضر صحت غیر قانونی سوما ٹیک انجکشن 20 ہزار کی تعداد میں پکڑے جاچکے ہیں جن کی مالیت 10کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔
ذرائع کے بقول اس پوری صورتحال میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے افسران کا کردار انتہائی غفلت پر مبنی ہے جو اپنی ذمے داریاں نبھانے کے بجائے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر اگر بھینسوں کا ٹیسٹ کیا جائے تو مضر صحت انجکشن بھینسوں کو استعمال کرانے والے باڑہ مالکان کو روزانہ کی بنیاد پر گرفت میں لیا جاسکتا ہے۔ تاہم ڈریپ صوبائی وزارت صحت کے تحت ایساکوئی نظام نہیں بنایا گیا اور نہ ہی صوبائی ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کو ان ذمے داریوں میں شامل کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں روزانہ دودھ استعمال کرنے والے شہریوں کی صحت اور زندگیاں دائو پر لگائی جا رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مضر صحت سوماٹیک انجکشن 3 بڑے ڈیلرز اپنے کارندوں کے ذریعے سائوتھافریقہ سے منگوا رہے ہیں۔ کیونکہ اس وقت یہ انجکشن سائوتھ افریقہ میں ہی بن رہے ہیں اور وہاں کی بلیک اور گرے مارکیٹ سے باآسانی خرید ے جا سکتے ہیں۔ جبکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک میں ان کی پروڈکشن اور فروخت پر پابندی عائد ہوچکی ہے۔ ایئر پورٹ کے علاوہ سوماٹیک انجکشن کی بھاری مقدار ماڈل کسٹم کلکٹو ریٹ اپریزمنٹ ایسٹ، ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ویسٹ اور ماڈل کسٹم کلکٹو ریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم سے بھی مس ڈیکلریشن کے ذریعے کراچی منگائی جا رہی ہے۔
رواں برس کے آغاز پر سپریم کورٹ کی جانب سیسوما ٹیک، بوسٹن نامی انجکشنوں کے استعمال پر پابندی عائد ہونے کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کراچی اور سندھ ڈرگ انسپکٹرز کی جانب سے ایف آئی اے اور رینجرز کے ساتھ مل کر مارچ اور اپریل میں کچھ کارروائیاں کی گئیں۔ تاہم مافیا مضر صحت انجکشن چھپانے میں کامیاب رہی اور متعلقہ اداروں کو کچھ درجن سے زائد انجکشن نہ مل سکے ، جس پر ناکام کارروائیا ں بھی بند کردی گئیں۔ اب منظم انداز میں مافیا سرگرم ہو گئی۔ ذرائع کے بقول بھینس کالونی کے باڑہ مالکان کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ایک خصوصی نیٹ ورک سرگرم ہوا جس کے تحت ملک میں بوسٹن و سوماٹیک اب اسمگل کرکے لائے جا رہے ہیں۔
کسٹم ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ انجکشن سائوتھ افریقہ سے محمد اعظم، نعمان اور نوید گجر اپنے ایک درجن سے زائد کارندوں کے ذریعے منگوا رہے ہیں۔ سائوتھ افریقہ آنے جانے والوں کو بھی رقم کا لالچ دے کر استعمال کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق 2 سے تین ہزار سے 15 سو انجکشنوں پر مشتمل سوما ٹیک کی کھیپ لانے کیلئے پہلے ہی سیٹنگ کر لی جاتی ہے۔ کراچیمیں انجکشن پہنچنے کے بعد یہی ڈیلرز انہیں بھینس کالونی کے میڈیکل اسٹورز پر سپلائی کردیتے ہیں جبکہ بڑے باڑہ مالکان کو براہ راست سپلائی بھی دی جاتی ہے۔
ذرائع کے مطابق بھینس کالونی اور اطراف کے بیشتر باڑہ مالکان، اداروں کے خوف سے سوماٹیک اور بوسٹن کا استعمال ترک کرچکے ہیں۔ تاہم بھینس کالونی اور ملیر کے دیگر علاقوں میں قائم سینکڑوں بڑے باڑوں میں کئی بااثر افراد کے باڑے میں موجود ہیں۔ جہاں ایک باڑے میں 250 سے 300 تک بھینسیں موجود ہیں جن میں 3 ڈی آئی جیز،2 ایس ایس پیز اور دیگر سرکاری اداروں کے اعلیٰ ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کے بھی باڑے ہیں۔جبکہ ان میں سے ڈی ایم سی ملیر کا عہدیدار بھی شامل ہے، جو کزن کے ذریعے بڑا باڑہ چلاتا ہے۔ انہی افسران نے مالی فائدے کیلئے کینسر سمیت دیگر امراض کا سبب بننے والے مضر صحت سوماٹیک انجکشن کی خرید و فروخت شروع کی، جس میں بعد ازاں دیگر باڑہ مالکان بھی شامل ہوگئے۔
ذرائع کے بقول ہر ڈیلر ایک ماہ میںکئی ہزار سوماٹیک انجکشن اسمگل کرا رہا ہے۔ بھینس کالونی میں مضر صحت سوماٹیک انجکشن فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹور کے مالک نے کروڑوں روپے کمانے کے بعد قائدآباد کی جگہ چھوڑ کر ملیر کے حساس علاقے میں رہائش اختیار کرلی ہے۔ اس میڈیکل اسٹور کی2 برانچیں بھینس کالونی میں سوماٹیک انجکشن 2400 روپے میں فروخت کر رہی ہیں۔ میڈیکل اسٹوروں کے کارندے باڑوں تک مال پہنچاتے ہیں۔ واٹس ایپ پر بنے گروپوں پر آرڈر ملنے کے بعد دہلیز تک انجکشن سپلائی کی سہولت کی اضافی رقم وصول کرتے ہیں۔
کراچی ایئرپورٹ پر کسٹم حکام نے پاکستانی نژاد برطانوی شہری سے تین کروڑ سے زائد مالیت کے ممنوعہ انجکشن برآمد کر لیے۔ مقدمہ درج کر کے مسافر کو گرفتار کر لیا گیا۔ کسٹم ذرائع کے مطابق پریم کورٹ کی جانب سے اس انجکشن پر پابندی ان رپورٹس کی بنیاد پر عائد کی گئی تھی جن میں بتایا گیا تھا کہ دودھ کے ساتھ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ ہارمونز برے طریقے سے انسانی صحت پر اثر ڈالتے ہیں۔ انجکشن استعمال کرانے کے بعد نکالا گیا یہ دودھ انسانی جسم میں موجود ہارمونز کے بیلنس کو بھی خراب کر دیتا ہے۔ یہ تمام نقصانات انسانوں اور جانوروں کی صحت کی خرابی کا چھوٹا سا نمونہ ہیں۔ مگر اصل میں یہ نقصانات ہارمونز کی خرابی کی وجہ سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں اس نیٹ ورک کے خلاف متعلقہ اداروں کو اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں جس کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند روز میں اس حوالے سے نیٹ ورک کے خلاف اہم اور بڑی کارروائی سامنے آئے گی، کیونکہ نیٹ ورک کے حوالے سے جو معلومات سامنے آئی ہیں ان میں معلوم ہوا ہے کہ یہ بہت سے ڈیلروں کا ایک ایسا نیٹ ورک ہے جس کو صرف چند افراد چلا رہے ہیں اور سرمایہ کاری وہی افراد کررہے ہیں۔ اگر ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے تو اس نیٹ ورک کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment