مرزا عبدالقدوس
اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو نو مسلم بہنوں کو دو اپریل تک حکومتی تحویل میں دیدیا۔ جبکہ دونوں کے شوہروں کی عبوری ضمانتیں منظور کرلی گئیں۔ گھوٹکی کی نو مسلم بہنوں آسیہ اور نادیہ نے اسلام آباد میں جرأت و استقامت کے ساتھ نیوز چینلز کا پروپیگنڈا مسترد کردیا اور میڈیا نمائندوں کے سامنے اپنا یہ موقف دہرایا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے شادی کی ہے۔ مذہب کی تبدیلی یا شادی کے سلسلے میں ان پر کسی نے جبر نہیں کیا اور نہ وہ کسی دباؤ کا شکار رہیں۔ اس سے پہلے وہ اپنا یہی موقف اپنے وکیل کی وساطت سے معزز عدالت کے سامنے پیش کرچکی ہیں۔ کل (منگل کو) اس بیان کی تصدیق کے لئے وہ عدالت کے سامنے پیش ہوئی تھیں، لیکن معزز عدالت نے ان سے اس سلسلے میں کوئی سوال جواب نہیں کیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت اگلے منگل تک ملتوی کرکے دونوں بہنوں کو کمشنر اسلام آباد کے سپرد کردیا اور حکم دیا کہ ایس پی لیول کی ایک خاتون افسر اس دوران ہمہ وقت ان کے ساتھ رہے۔ اس دوران یہ اسلام آباد سے باہر نہیں جاسکتیں۔ معزز عدالت نے دونوں بہنوں کے وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایشو بہت اہم ہوگیا ہے اور ملکی وقار کا بھی سوال ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کیس کو اس طرح شفاف طریقے سے حل کیا جائے کہ کوئی حرف نہ اٹھا سکے۔ اس لئے میں ان چاروں یعنی ان بہنوں اور ان کے شوہروں کو اپنی نگرانی میں لے رہا ہوں، کوئی انہیں گرفتار نہیں کرسکے گا۔ البتہ ان کے خلاف جو انکوائریاں چل رہی ہیں وہ مکمل ہونی چاہئیں اور جس نے ان سے جو کچھ، پوچھنا ہے وہ پوچھ لے‘۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ’گارڈین جج بھی مقرر کررہا ہوں، ان کو اگر کوئی شکایت ہو تو مجھے براہ راست بتائیں گی‘۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان ریمارکس کی راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے بھرپور تائید کی اور کہا کہ ’ملکی وقار کیلئے ہم ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ یہ لڑکیاں میرے پاس قانونی تحفظ کے لئے آئی تھیں۔ ہم آپ کے پاس آئے ہیں۔ آپ جو حکم دیں گے ہم اس پر عمل کریں گے۔ میں ان کا وکیل ہوں جدھر یہ جائیں گی، میں ان کا ساتھ دوں گا‘۔ معزز عدالت کے ان احکامات کے بعد دونوں بہنوں کو ضلعی انتظامیہ نے اپنی نگرانی میں لے لیا۔ عدالت کی جانب سے ان کے شوہروں کو گرفتار نہ کرنے کے زبانی حکم کے باوجود ان کے وکیل راؤ عبدالرحیم نے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے آئندہ منگل تک ان کی عبوری ضمانت لے لی، تاکہ انہیں مکمل قانونی تحفظ مل سکے۔ اب اس دوران وہ اپنی رہائش گاہ پر رہیں گے۔ رائو عبدالرحیم ایڈووکیٹ کے مطابق اگر انکوائری کمیشن نے انہیں طلب کیا یا ان سے معلومات حاصل کرنا چاہیں تو وہ ان سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے معزز عدالت کے سامنے اپنا یہ موقف دہرایا کہ ان لڑکیوں کی عمر کے تعین کیلئے میڈیکل ٹیسٹ کرالیا جائے، جس پر معزز عدالت نے کہا کہ انکوائری کمیشن اس معاملے کو بھی دیکھ لے گا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم دیا کہ وزیراعظم کے حکم پر وزیراعلیٰ پنجاب جو انکوائری کررہے ہیں یا صوبہ سندھ کی انتظامیہ اس حوالے سے جو انکوائری کررہی ہے، اس کیس کی تمام انکوائریز کی رپورٹس اگلے منگل کو اس عدالت میں پیش کی جائیں۔ اس موقع پر دونوں لڑکیاں اور ان کے شوہر خاموش کھڑے رہے۔ دونوں بہنوں نے برقعے پہن رکھے تھے۔
جب دونوں جوڑے اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت سے باہر نکلے تو الیکڑونک میڈیا کے صحافی اور کیمرہ مین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ان کے وکیل راؤ عبدالرحیم نے پولیس حکام سے کہا کہ ذرا رک جائیں، ان لڑکیوں کو میڈیا سے تھوڑی بات کرنے دیں۔ جس پر دونوں نے میڈیا کے سامنے اپنا موقف دہرایا کہ انہون نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی مرضی سے شادیاںکی ہیں۔ ان پر کوئی دباؤ تھا نہ اب ہے۔ وہ دونوں پر اعتماد دکھائی دیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسلام قبول کرنے کے بعد شادی نہ کرتیں تو کہاں جاتیں، کس کے پاس رہتیں۔ قبل ازیں کیس کی سماعت کے اختتام سے پہلے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے عدالت سے ان کے شوہروں کی 9 اپریل تک عبوری ضمانت بھی لے لی تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ رہ سکیں اور انکوائری کمیٹی کے سامنے بھی پیش ہوسکیں۔ دونوں لڑکے برکت علی اور صفدر علی بھی پرسکون اور مطمئن نظر آرہے تھے۔
راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’عدالت نے جو فیصلہ کیا ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ تمام لوگوں، خاص طور پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جس حد تک ممکن ہو اطمینان دلانا کیلئے بھی عدالت کا مناسب فیصلہ ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے کہ یہ حساس معاملہ ہے جس سے پاکستان کا تشخص جڑا ہے۔ ہمیں اس کا احساس ہے، ہم عدالتی احکامات کو تسلیم کرتے ہوئے بھرپور تعاون کریں گے۔ کیوں کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس ایشو پر پاکستان کے خلاف بیرون ملک سے کوئی انگلی اٹھائے یا اس کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کرے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں ان کے وکیل کے طور پر دونوں بہنوں سے مل سکتا ہوں۔ لیکن اگر ان کا کوئی رشتہ دار انکوائری کے دوران ان سے نہ ملا تو میں بھی نہیں ملوں گا۔ انہیں آزادانہ فیصلہ کرنے اور بیان دینے کا حق اور اختیار ہے۔ انکوائری میں وکیل پیش ہوسکتا ہے کیونکہ انہوں نے مجھے اپنا وکیل مقرر کیا ہے، لیکن میں پیش نہ ہوں گا‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ بعض خواتین و حضرات کے پیٹ میں اس وقت مروڑ اٹھنے لگتے ہیں جب کوئی غیر مسلم کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے، جس طرح ان نو مسلم لڑکیوں کا معاملہ ہے، بہت سے خواتین و حضرات یقیناً بے چین ہوں گے۔ لیکن ابھی تک اس کیس میں یہ ’’موم بتی مافیا‘‘ کھل کر سامنے نہیں آیا، کیونکہ رنکل کماری کیس اور دیگر کئی کیسز کی مثال ان کے سامنے ہے، کہ ان غیر مسلم خاندانوں کی بچیوں نے اسلام قبول کر کے استقامت کا ثبوت دیا اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی کھڑے ہوکر کہا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے اور مسلمان ہوئی ہیں اوران پر کوئی دباؤ نہ تھا۔ اب بھی اس مافیا کو اس بات کا بخوبی علم ہے، اس لئے سامنے نہیں آئے۔ یہ وہی مغرب سے متاثر خواتین و حضرات ہیں کہ جب کوئی مسلمان لڑکی گھر سے بھاگ کر شادی کرلے تو انہیں انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں اور اس کا بوائے فرینڈ کے ساتھ جانا اس کا حق قرار دیتے ہیں۔ لیکن جب اسلام اور نکاح کی بات آئے تو ان کا موقف بدل جاتا ہے۔ ان کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔ جن لڑکوں برکت علی اور صفدر علی سے ان نو مسلم لڑکیوں کا نکاح ہوا تھا، وہ عبوری ضمانت کے باوجود اسلام آباد ہی میں رہیں گے‘‘۔
٭٭٭٭٭