منصور بن ناصر العواجی نے اپنی کتاب عجائب القصص میں یہ عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ:
خلیفہ معتضد ایک مرتبہ اپنے زیر تعمیر محل کا معائنہ کرنے کے لئے گیا۔ اس نے مختلف زاویوں سے محل کو دیکھا۔ کاریگر، اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے۔ معمار اور مزدور تیزی سے ہاتھ چلا رہے تھے۔ اس نے ایک کالے رنگ کے حبشی کو دیکھا جو دوسرے مزدوروں کے ساتھ سر پر ٹوکری اٹھائے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ دوسرے مزدور ایک ایک سیڑھی چڑھتے، مگر وہ دو دو کر کے چڑھتا۔ علاوہ ازیں دوسرے مزدورں کے مقابلے میں اس کے سر پر رکھی ٹوکری خاصی بڑی اور بھاری تھی۔ اس کی غیر معمولی حرکات کے پیش نظر خلیفہ نے حکم دیا کہ اس حبشی کو میرے سامنے پیش کیا جائے۔
حبشی سے اس نے پوچھا کہ تم دوسرے مزدورں کے مقابلے میں زیادہ مٹی اٹھا رہے ہو اور سیڑھیاں بھی ایک ایک کے بجائے دو دو چڑھ رہے ہو۔ اس کا سبب کیا ہے؟ اس سے کوئی جواب بن نہ پایا اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔
خلیفہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ اس کی باتوں سے مجھے جھوٹ اور فریب کی بو آ رہی ہے، یہ شخص یا تو چور ہے اور دن کے وقت کام کر کے اپنے آپ کو چھپائے رکھتا ہے یا کسی جگہ سے خزانہ اس کے ہاتھ لگا ہے اور غیر متوقع طور پر اس کے پاس درہم و دینار آگئے ہیں۔
اس نے دوبارہ اس حبشی کو بلایا اور اس کو زور سے تھپڑ مارا اور کہا کہ سچ سچ بتائو، تمہارا معاملہ کیا ہے، میرے سوالات کا صحیح جواب دو، ورنہ ابھی تمہیں قتل کردوا دوں گا۔ پہلے تو حبشی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا اور کسی جرم کو ماننے سے انکار کرتا رہا، مگر جب اس پر مزید سختی کی گئی تو کہنے لگا کہ امیر المومنین اگر میری جان بخشنے کا وعدہ کریں تو میں سچ سچ بتا دیتا ہوں۔
خلیفہ کہنے لگا کہ اگر تم نے کوئی ایسی حرکت نہ کی ہو، جس سے تم پر حد لاگو ہوتی ہو، تو تمہیں امان ہے۔ اس نے سمجھا کہ مجھے امان مل گئی ہے۔
کہنے لگا: میں فلاں محلے میں بار برداری کا کام کرتا تھا۔ اجرت پر کبھی کام مل گیا، کبھی سارا دن فارغ۔ ایک مرتبہ خاصا عرصہ مجھے کوئی کام نہ ملا۔ میں ایک مدت تک فارغ رہا۔ ایک دن میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ہاتھ میں تھیلی پکڑے ہوئے گزر رہا ہے۔ میں نے اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ میں اس کیلئے اجنبی تھا، لہٰذا اس نے مجھ پر کوئی توجہ نہ دی۔ ایک ویران جگہ مجھے موقع مل گیا۔ میں نے جھپٹ کر اس کی تھیلی چھین لی اور اس کو کھول کر دیکھا تو وہ دیناروں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ میرے پیچھے آیا تو میں نے اسے نیچے گرا کر اس کا گلا دبا لیا۔ اس نے چیخنا چاہا تو میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ تڑپتا رہا، مگر میں نے اس کو اس وقت چھوڑا جب اس کی سانسیں ختم ہوچکی تھیں۔ میں نے اس کو کندھے پر اٹھایا۔ رات ہوچکی تھی۔ میں سیدھا اپنے گھر آیا اور لاش کو تنور میں ڈال کر اسے آگ لگا دی جو جل کر سیاہ ہوگئی۔ میں نے تنور میں مٹی ڈال دی۔ میرے پاس دینار تھے جو مجھے تقویت دے رہے تھے۔ میں نے اگلے دن اس کی ہڈیاں نکالیں اور انہیں دریائے دجلہ میں بہا دیا۔
خلیفہ نے اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا اور ایک آدمی کو بھیجا کہ اس کے گھر سے دیناروں کی تھیلی لے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ آدمی تھیلی لے کر آگیا۔ اسے دیکھا گیا تو اس کے اوپر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا۔ شہر میں اس کے نام کی منادی کروائی گئی۔ اس کی بیوہ نے اعلان سنا تو بھاگتی ہوئی آئی کہ یہ منادی میرے خاوند کے نام کی ہے، جو کئی ہفتوں سے غائب ہے۔ ہم نے اس کو ہر جگہ تلاش کیا ہے۔ مگر وہ نہیں مل سکا۔ وہ فلاں دن فلاں تاریخ کو ایک ہزار دینار لے کر گھر سے نکلا تھا۔ میرے خاوند کا ایک چھوٹا بیٹا ہے۔ خلیفہ نے وہ دینار اس عورت کو دینے اور اس حبشی کی گردن مارنے کا حکم دیا اور کہا کہ اس کی لاش کو تنور میں ڈال دیا جائے اور اس کی ہڈیوں کو دجلہ میں بہا دیا جائے۔ (عجائب القصص (102) منصور بن ناصر العواجی)
٭٭٭٭٭