حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی پاکؐ نے اپنے خصوصی اصحاب کا تذکرہ کیا اور فرمایا: ’’خدا تعالیٰ ابوبکر صدیقؓ پر رحم فرمائے، انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کیا، میرے ساتھ ہجرت کی اور اپنے مال سے بلالؓ کو آزاد کرایا۔ حق تعالیٰ عمرؓ پر رحم فرمائے، وہ ہمیشہ سچی بات کہتے ہیں، خواہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو، سچ کہنے کی عادت نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ ان کا کوئی دوست نہیں ہے۔ حق تعالیٰ عثمان غنیؓ پر رحم فرمائے کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں اور حق تعالیٰ علیؓ پر رحم فرمائے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، حق ان کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
اس فرمان میں نبی پاکؐ نے اس بات کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے کہ انہوں نے حضرت بلالؓ کو انتہائی بھاری رقم ادا کر کے آزاد کرایا تھا۔
فتح مکہ کے دن رسول اقدسؐ کے اردگرد بے شمار لوگ تھے۔ آپؐ نے سیدنا بلالؓ کو عثمان بن طلحہؓ کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ اس کو جا کر پیغام دو کہ رسول اقدسؐ نے حکم دیا ہے کہ کلید کعبہ لے کر حاضر ہوں۔ یہ کنجیاں صدیوں سے اسی خاندان کی تحویل میں چلی آ رہی تھیں۔ سیدنا بلالؓ نے رسول اقدسؐ کے ارشاد کو عثمان بن طلحہ تک پہنچا دیا۔ عثمان نے کہا: بہت اچھا، اس نے اپنی والدہ سلافہ بنت سعد بن شہید الانصاریہ کے پاس جا کر عرض کی کہ سرکار دو عالمؐ نے کعبہ کی چابیاں طلب کی ہیں۔ ادھر سیدنا بلالؓ نے آ کر عرض کیا کہ چابیاں لے کر عثمان ابھی حاضر ہوتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ بھی لوگوں میں بیٹھ گئے۔ عثمان نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں خود چابیاں لے کر آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوں۔ اس کی والدہ نے کہا: ’’میں خدا کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو اپنے ہاتھوں سے سرکار دو عالمؐ کی خدمت میں اپنی قوم کی عظیم الشان امانت لے جائے، تو ہی مجھے زیادہ عزیز ہے، لہٰذا تو ہی لے جا۔‘‘
عثمان بن طلحہؓ خود چابیاں لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کے سامنے یہ امانت پیش کر دی، پھر آپؐ نے کعبہ کا دروازہ کھولا تو حضرت اسامہ بن زیدؓ، حضرت عثمان بن طلحہؓ اور حضرت بلالؓ اندر داخل ہوئے۔ بعد میں دروازہ بند کر دیا گیا۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے کسی وجہ سے دیر ہو گئی۔ جب آپؐ تشریف لائے تو آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو دروازے پر کھڑا کر دیا تاکہ لوگوں کو اندر آنے سے روکا جائے۔ جب آپؐ کے داخل ہوتے ہی لوگوں کا ہجوم ہو گیا تو سیدنا ابن عمرؓ آگے بڑھے اور لوگوں کی گردنوں پر سوار ہو گئے تاکہ اندر جا کر ہادی دوجہاںؐ کی اقتدا کی جائے، لیکن رسول اقدسؐ دیر تک اندر ٹھہرے۔ پھر جب آپؐ باہر تشریف لائے تو سیدنا ابن عمرؓ نے فوراً سیدنا بلالؓ سے جو دروازے کے پیچھے کھڑے تھے سوال کیا کہ ’’آپؐ نے کعبہ میں داخل ہو کر کیا کِیا؟‘‘
سیدنا بلالؓ نے جواب دیا ’’کعبہ میں چھ ستون دو قطاروں میں ہیں۔ قطاروں کے دو ستونوں کے درمیان آپؐ نے دو رکعت نماز ادا کی اور کعبہ کا دروازہ آپؐ کے پیچھے تھا۔ جب آپؐ اندر گئے تو دیوار آپؐ کے مقابل تھی اور آپؐ کے اور دیوار قبیلہ کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا، جہاں آپؐ نے نماز پڑھی، وہاں سرخ سنگ مر مر لگا ہوا تھا۔‘‘
جب آپؐ باہر تشریف لائے تو دروازہ بند کر دیا گیا اور خانہ کعبہ کی چابیاں آپؐ کے دست مبارک میں تھیں، جو آپؐ نے عثمان بن طلحہؓ کے حوالے کیں۔
عبدالرحمن فہبریؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم غزوئہ حنین میں رسول اقدسؐ کے ہمراہ تھے۔ سخت گرمی کے روز چلے، ایک درخت کے سایہ کے نیچے اترے۔ جب سورج زوال میں آ گیا، میں نے اپنی زرہ سنبھالی اور گھوڑے پر سوار ہو کر سرکار دو عالمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اقدسؐ اپنے خیمہ میں تھے۔ میں نے سلام کیا۔
مغرب کا وقت قریب تھا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا، آپؐ نے پھر حضرت بلالؓ کو آواز دی۔ حضرت بلالؓ ایک کیکر کے درخت کے نیچے تھے۔ آواز سن کر وہ ہوشیار ہوئے، گویا اس درخت کا سایہ پرندے کے سائے کی طرح تھا۔ حضرت بلالؓ نے آواز دی: ’’لبیک…‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’میرے گھوڑے پر زین کسو۔‘‘
انہوں نے فوری طور پر آپؐ کے گھوڑے پر زین کس دی۔ جس کی دونوں طرف کھجور کی چھال کی تھیں۔ اس میں کوئی بڑی شان و شوکت نہ تھی۔
راوی کہتے ہیں کہ جب زین ڈال دی گئی تو رسول اقدسؐ سوار ہوئے اور ہم بھی اپنی سواریوں پر سوار ہوئے۔ ہم رات کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں صف بستہ ہو گئے۔
سیدنا انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرمؐ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے فرمایا کہ آپ کے پاس ان چیزوں سے عمدہ کوئی چیز نہ تھی جس کو آپ نے مجھے دے دیا۔ میرا مؤذن بلالؓ اور میری ناقہ جس پر میں نے اور آپؓ کی صاحبزادی عائشہ صدیقہؓ نے ہجرت کی، گویا آپؓ کو میں جنت کے دروازے پر دیکھتا ہوں کہ آپ میری امت کی شفاعت فرما رہے ہیں۔‘‘
٭٭٭٭٭