من گھڑت خبریں پھیلانے میں بھارتی نمبر ون نکلے

سدھارتھ شری واستو
فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام اور واٹس اپ سمیت متعدد سماجی رابطوں کی عالمی سائٹس نے بھارتی الیکشن کمیشن کو پیش کی جانیوالی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کی نسبت بھارتی عوام میں من گھڑت خبریں اور گمراہ کن ویڈیوز اور تصاویر پھیلانے کا رجحان بہت زیادہ ہے، جس سے پورا سماج متاثر ہو رہا ہے۔ بھارتی صحافی امرت کور کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق جوں جوں بھارت میں جنرل الیکشن قریب آرہے ہیں ویسے ویسے جھوٹی خبروں کا بازار گرم ہو رہا ہے۔ جھوٹی خبروں کے تحت اپوزیشن سمیت مذہبی تنظیموں اور اقلیتوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا اور نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ فوربس نیوز اینالائسٹ بلاگ کے مطابق بھارت میں آن لائن صارفین کی تعداد چھیالیس کروڑکے لگ بھگ ہے اور اس وقت الیکشن کی آمد کے سبب سے پہلے فیس بک نے جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ راجدھانی دہلی سے پورے بھارت میں facebook پر جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا مواد کو روکنے کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ واٹس اپ سمیت دیگر سماجی سائٹس کی انتظامیہ نے بھی بھارتی صارفین کی پوسٹوں کی اسکریننگ اورجھوٹ پڑنے کی کارروائی سے اتفاق کیا ہے، جس میں ان کو الیکشن کمیشن آف انڈیا کی حمایت حاصل ہوگی۔ واضح رہے کہ 2018ء کے آخر میں کئے جانے والے ایک عالمی سروے میں مائیکرو سافٹ کارپوریشن نے انکشاف کیا تھا کہ دنیا بھر کے ممالک کی نسبت بھارت میں جھوٹی خبروں کو بہت شوق سے پھیلایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جھوٹی خبروں کو بلا تحقیق آگے بڑھانے کا سب سے زیادہ رجحان 54 فیصد تھا، لیکن بھارت میں یہی رجحان 69 فیصد تھا۔ بھارت میں کار گزار فیس بک ڈائریکٹر برائے پروڈکٹ مینجمنٹ سمید چکرورتی نے بتایا ہے کہ وہ بالخصوص الیکشن2019ء میں بھارتی فیس بک صارفین کی نیوز فیڈ سمیت ذاتی وال پر لگائی جانے والی پوسٹوں کا پھیلائو 80 فیصد کم کردیں گے، تاکہ کوئی بھی جھوٹی خبر چند لوگوں تک محدود ہوسکے۔ جبکہ facebook کی انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ مقامی سماجی تنظیموں کی مدد سے ہندی، بنگلہ، تامل، گورمکھی سمیت مختلف علاقائی زبانوں میں خبروں کے پھیلائواور بالخصوص جھوٹی و بناوٹی پوسٹوں کی شناخت اور ان کو delete کرنے کا کام شروع کر رہی ہے۔ برطانو ی جریدے ایوننگ اسٹینڈرڈ کے لکھاری جیمس مورس نے بتایا ہے کہ بھارتی الیکشن میں رشوت اور دھونس دھمکی کا عنصر بھی بڑے زوروں پر کام کرتا ہے۔ حالیہ ایک ہفتے میں اگرچہ بھارتی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے الیکشن کے دن من چاہی کامیابی کیلئے عوام اور حمایتی گروہوں میں رشوت تقسیم کرنے کیلئے شراب، نقد رقوم، غلہ، موبائل فونز سمیت گانجا، چرس اور آئس کی بہت بڑی تعداد ضبط کرلی ہے، جس کی مقدار 55 کروڑ روپے ہے، لیکن اب بھی متعد د ریاستوں میں منشیات سمیت اعلیٰ قسم کی شراب اور نقد رقوم کے پیکٹس مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوام اور کارکنان میں تقسیم کیلئے خفیہ گوداموں میں جمع کرکے رکھی گئی ہیں۔ بھارتی میڈیا نے مزید بتایا ہے کہ الیکشن سے قبل ہی اہم سیاسی جماعتوں بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے متعدد شہروں میں الیکشن دفاتر/ ہیڈ کوارٹرز میں سوشل سیل بنائے گئے ہیں۔ جن کا کام ہر قیمت پر ووٹرز کو اپنی پارٹی کیلئے راغب کرنا ہے اور اس کام کیلئے وہ اس پارٹی مرکز میں بیٹھ کر خبریں بناتے ہیں اور مخالفین کیخلاف ان کے بیانات اور مختلف واقعات کی آڑ میں پروپیگنڈا خبریں بھی تیار کرتے ہیں، جن کو تواتر سے اپلوڈ کیا جاتا ہے اور حامیوں کو ہدایات کی جاتی ہیں کہ ہر قیمت پر ایسی خبروں اور پوسٹوں کو آگے پھیلایا جائے۔ بھارتی سماجی تجزیہ نگار انیل موہنگر کہتے ہیں کہ بھارت میں بالخصوص سماجی رابطوں کی سائٹس کا بہت غلط استعمال کیا گیا ہے۔ جھوٹی خبروں کے پھیلائو کے سبب سماجی بے چینی اور ہجومی تشدد کی وارداتیں رونما ہوئیں اور جس کے نتیجہ میں متعدد بے گناہ اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر جھاڑ کھنڈ میں ہجوم نے ان تین مسلمان نوجوانوں کو تشدد کرکے قتل کردیا گیا جن کے بارے میں واٹس اپ پر یہ خبر پھیلائی گئی تھی کہ تین اغواکار بچوں کو اغوا کرنے کیلئے گھوم رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک جھوٹی خبر اتر پردیش میں یہ کہہ کر پھیلائی گئی تھی کہ فلاں گائوں میں ایک گائے کو مسلمانوں نے کاٹ ڈالا ہے۔ حالانکہ گائے اپنی طبع موت مری تھی اور گائوں کے مکھیا نے گائے کی لاش کو دفن کرنے کیلئے مقامی مسلمان نوجوانوں کو رقم دی تھی کہ اسے دفنا دیا جائے تاکہ کھیت میں تعفن نہ پھیلے۔ لیکن ہندو اکثریتی عوام نے اس پیغام کو الٹا لیا اور موقع پر جاکر تمام افراد کو مار ڈالا۔ fake نیوز کے حوالے سے بی جے پی کا میڈیا سیل بہت بدنام ہے اور ماضی میں کانگریسی رہنما راہول گاندھی کے بارے میں یہ خبر شائع اور سماجی رابطوں پر پھیلا چکا ہے کہ راہول گاندھی مسلمان ہیں اور ان کی پیدائش سونیا گاندھی اور ایک مسلمان دوست کی مرہون منت ہے۔ ایسی ہی جھوٹی خبروں کے مطابق بھارتی جریدے بھاسکر نے بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اگرچہ 16 اگست 2018ء کو دہلی میں مرے۔ لیکن ان کے آنجہانی ہونے کی خبریں تین ماہ قبل ہی تواتر سے شائع ہوئی تھیں، جس پر باقاعدہ ان کے گھر والوں کو وضاحتیں دینا پڑیں کہ یہ خبر جھوٹ ہے اور واجپائی زندہ ہیں۔ WhatsApp کے بھارت میں موجود ایک اعلیٰ عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ 2018ء میں بھارتی صارفین نے ان کی ایپلی کیشن کا بہت منفی استعمال کیا اور اس سال بھی ایپلی کیشن پر جھوٹی اور گمراہ کن اطلاعات پھیلا کر 23 افراد کی موت کا سامان کیا۔ جس کے بعد انتظامیہ نے کسی بھی انفرادی صارف کو اپنا پیغام 256 افراد کو سنگل کلک پر بھیجنے کی تعداد میں کمی کرکے اس کو 5 صارفین تک محدود کردیا ہے اور اس پیغام پر بھی اب یہ لکھا آتا ہے کہ یہ پوسٹ صارف کی اپنی ہے یا اس کو فارورڈ کیا گیا ہے؟ جریدے دکن کرونیکل نے بھی الیکشن میں جھوٹی خبروں کے پھیلائو کے حوالے سے بتایا ہے کہ الیکشن کمیشن کو سب سے بڑا چیلنج سماجی رابطوں کی سائٹس پر تواتر سے پھیلایا جانیوالا جھوٹ اور مخالفین کیخلاف پروپیگنڈے کے بطور پھیلائی جانے والی من گھڑت خبریں ہیں۔ جن کو تمام سماجی رابطوں کی سائٹس بالخصوص فیس بک سے ہٹانا چیلنج بن چکا ہے۔ اس ضمن میں بھارتی الیکشن کمیشن نے فیس بک، ٹویٹر، واٹس اپ، ٹک ٹاک سمیت بیشتر سماجی رابطوں کی سائٹس کی انتظامیہ کے ساتھ ایک اہم میٹنگ منعقد کی ہے۔ لیکن کئی سیاسی و سماجی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کو سماجی رابطوں کی سائٹس پر لاگو کرنا بڑا بہت مشکل کام ہے۔ آن لائن خبری پورٹل آلٹ نیوز کے ڈائریکٹر پراتک سنہا کہتے ہیں کہ بھارتی عوام کی ایک کوالٹی یہ بھی ہے کہ یہ من چاہی کسی بھی خبر کو آگے بڑھا دیتے ہیں اور اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ان کی جانب سے پھیلائی جانے والی خبر یا ویڈیو یا تصویر معاشرے کے دیگر طبقات اوربالخصوص اقلیتوں پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ تمام بھارتی سوشل سائٹس پر جھوٹ اور من گھڑت خبریں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو remove کرنے کرنے کیلئے کئی ماہ لگیں گے۔ الیکشن کے دوران جھوٹی خبروں کا پھیلائو بہت زیادہ ہے اور یوں سمجھئے کہ خود الیکشن کا قریب آنا بھارتیوں کیلئے جھوٹی خبریں پھیلانے کا موسم ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment