امریکہ طالبان سے شرائط منوانے کے لئے شمالی اتحاد کو استعمال کررہا ہے

وجیہ احمد صدیقی
امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی مخلص۔ وہ مذاکرات میں طالبان سے اپنی شرائط منوانے کیلئے شمالی اتحاد کو استعمال کر رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے افغانستان میں عبوری حکومت کی تجویز کو امریکہ خود تو مسترد نہیں کرسکا، لیکن اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کے ذریعے اس تجویز کے خلاف واویلا کروا رہا ہے۔ معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی بد نیتی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کامیابی کی سطح پر پہنچ کر مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ 2015ء میں بھی یہی ہوا تھا کہ امریکہ نے طالبان کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن طالبان اس کیلئے راضی نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے واپس نہیں جانا چاہتا۔ لیکن اس کی خواہش ہے کہ اگر انخلا کرنا پڑے تو افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی ہوجائے۔ لیکن وہ یہ حقیقت نہیں جانتا کہ 90ء کی دہائی میں جب افغانستان میں وار لارڈز آپس میں لڑ رہے تھے، حزب اسلامی اور شمالی اتحاد میں گھمسان کی جنگ جاری تھی تو اس خانہ جنگی پر طالبان نے ہی قابو پایا تھا اور افغانستان کے تقریباً 90 فیصد علاقے میں امن قائم کردیا تھا، جو 2001ء میں امریکی حملے کے بعد ختم ہوگیا۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ افغانستان میں امن کی کنجی امریکہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات دو طرفہ ہوتے ہیں، جن میں فریقین ایجنڈے پر متفق ہوتے ہیں، اگر وہ سنجیدہ اور مخلص ہوں تو مسئلے کا حل نکل آتا ہے۔ لیکن امریکہ سنجیدہ ہے اور نہ ہی مخلص و دیانت دار نظرآتا ہے۔ وہ مجبور ہوکر طالبان سے مذاکرات تو کررہا ہے، لیکن اس کی خواہش ہے کہ طالبان اس کی شرائط پر مذاکرات کریں۔ وہ افغانستان میں اپنی مرضی کا حکومتی ڈھانچہ اور طرز حکومت طے کرانا چاہتا ہے۔ لیکن طالبان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ امریکی افغانستان سے مکمل انخلا کی حتمی تاریخ بتائیں۔ آصف ہارون کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا فریق بھی شامل ہو۔ لیکن امریکہ کے بالادست ہونے کی وجہ سے طالبان کسی تیسرے فریق کی شرکت نہیں چاہتے۔ اگر امریکہ کسی بھی وجہ سے طالبان کا مطالبہ تسلیم بھی کرنا چاہے تو بھارت، اسرائیل اور افغان کٹھ پتلی حکومت خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور امریکہ پر دبائو ڈالتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان کی جانب سے افغان عبوری حکومت کی تجویز پر کابل کے صدارتی محل تک محدود اشرف غنی حکومت چیخ پڑی ہے۔ آج وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یہ تجویز آئی ہے اور ماضی میں سوویت یونین کی واپسی کے وقت جنرل ضیاء الحق نے بھی افغان عبوری حکومت کی تجویز دی تھی، جسے وزیر اعظم جونیجو اور ان کے ناعاقبت اندیش وزیر خارجہ زین نورانی نے مسترد کردیا تھا۔ اس کا نتیجہ افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں نکلا تھا۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہاکہ طالبان کے ساتھ امریکہ 2011ء میں مذاکرات پر مجبور ہوا تھا، جب اوباما کی حکومت تھی۔ امریکہ نے مذاکرات کا آغاز سراج الدین حقانی سے کیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ وہ ملا عمر سے لاتعلقی کا اعلان کردیں۔ لیکن سراج الدین حقانی نے انکار کردیا تھا اور امریکیوں کو جتا دیا تھا کہ ملا عمر ان کے امیر ہیں اور وہ ان ہی کے احکامات مانتے ہیں۔ امریکی آج بھی ہلمند اور دیگر فوجی اڈوں پر طالبان کے حملوں سے گھبرا کر مذاکرات کی میز پر آئے ہیں۔ لیکن ان کی یہ کوشش ہے کہ جس طرح ممکن ہو طالبان سے اپنی شرائط پر مذاکرات کریں۔ امریکی یہ خوف پیدا کر رہے ہیں کہ اگر وہ چلے گئے تو افغانستان میں خانہ جنگی ہوجائے گی۔ لیکن طالبان واحد قوت ہیں جو ملک میں امن قائم کرسکتے ہیں۔ شمالی اتحاد اور دیگر گروپوں کو اگر امریکہ اسلحہ بھی فراہم کرے گا تو وہ طالبان کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ آصف ہارون کا کہنا تھا کہ طالبان نے روس، چین اور ایران کے ساتھ بات چیت کر رکھی ہے اور اب پاکستان بھی اس گروپ میں شامل ہے، جو افغانستان میں امن کے قیام کا خواہش مند ہے۔ اس لئے امریکہ کی جانب سے شمالی اتحاد کو استعمال کرنے کی کوششیں ناکام رہیں گی۔ افغانستان میں طالبان کی مقبولیت سے امریکہ خائف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ نائن الیون سے آج تک امریکہ کے مقابلے میں طالبان کامیاب رہے ہیں اور انہوں نے شکست ماننے سے انکار کردیا ہے۔ افغان نژاد امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے بارے میں اشرف غنی حکومت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ افغان عبوری حکومت کے سربراہ بننا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی اخبارات میں طالبان کے خلاف ایک بار پھر پروپیگنڈا شروع ہو گیا ہے کہ انہوں نے ہزارہ شیعہ کو قتل کیا اور بامیان میں بدھا کے مجسموں کو بموں سے اڑایا۔ لیکن ان سب باتوں کے اثرات امریکہ میں تو ہوسکتے ہیں طالبان اور افغانستان پر نہیں ہوسکتے۔ امریکہ نے اپنی ناکامیوں کا ملبہ ہمیشہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے اور پاکستان سے ڈو مور کی فرمائش ہمیشہ جاری رہی ہے، لیکن اب پاکستان نے ڈومور سے انکار کردیا ہے تو اس کے اوپر FATF کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کی تلوار لٹکا دی ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment