پاکستانی ماہی گیر کے قتل کا پرچہ مودی کے خلاف کٹے گا

اقبال اعوان
بھارتی صوبہ گجرات کی بجھ جیل میں انتہا پسند ہندو قیدیوں اور اہلکاروں کے تشدد سے شہید ہونے والے پاکستانی ماہی گیر نورالامین کے اہل خانہ نے بھارتی وزیراعظم مودی کے خلاف قتل کا کیس دائر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت شہید کی لاش فوری طور پر پاکستان منگوائے تاکہ قانونی کارروائی کی جائے۔ جبکہ بھارتی حکام سے اس قتل کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ بھی مانگی جائے۔ اہل خانہ کے مطابق نور الامین کی عمر 65 سال تھا۔ ستمبر 2017ء میں گرفتاری کے وقت تک وہ صحت مند تھا۔
واضح رہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد دو پاکستانی قیدیوں کو بھارتی جیلوں میں موجود انتہا پسند ہندو قیدی اور اہلکار تشدد کر کے شہید کرچکے ہیں۔ ان میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے شخص کی میت پنجاب لائی گئی تھی۔ اس دوران بھی پاکستان نے بھارتی حکام کوکہا تھا کہ بھارت اپنی افواج کی شکست کا بدلہ پاکستانی قیدیوں سے نہ لے۔ پاکستان میں قید بھارتی ماہی گیروں کو قانون کے مطابق تمام تر سہولتیں فراہم کی جائی ہیں اور سزا ختم ہونے پر واپس بھارت بھیجا جاتا ہے۔ تاہم بھارت میں قید پاکستانی ماہی گیروں کے ساتھ انتہائی خراب سلوک ہوتا رہا ہے۔ بھارتی جیلوں سے رہا ہوکر واپس آنے والے پاکستانی ماہی گیر جیلوں میں ہونے والے سلوک کا بتاتے ہیں تو اس کو سن کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بھارتی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کو جانوروں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ پاکستانی ماہی گیروں کو گجرات کی جیلسی (JALSI)، کچھ، بجھ اور دیگر جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ جبکہ اب دیگر شہروں کی جیلوں میں بھی منتقل کیا جا رہا ہے۔ 16 مارچ 2019ء کو بھارتی جیل بجھ میں پاکستانی ماہی گیر نورالامین کو انتہا پسند ہندو قیدیوں نے تشدد کر کے شہید کردیا تھا۔ دہلی میں پاکستان سفارت خانے نے اس حوالے سے پاکستانی وزارت خارجہ کو انفارم کیا اور تصدیق کی گئی کہ ماہی گیر کا تعلق کراچی سے تھا۔ بعد ازاں تصدیق ہوگئی کہ نور الامین کورنگی سو کواٹرز بنگالی پاڑہ کورنگی سیکٹر 85 کے مکان نمبر HE-110 کا رہائشی تھا۔
’’امت‘‘ کو شہید ماہی گیر نورالامین کی اہلیہ حمیدہ بیگم نے بتایا کہ ’’میرا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ میرے شوہ کئی کئی دن بلکہ بعض اوقات ایک ڈیڑھ ماہ کیلئے سمندر میں شکار پر جاتے تھے۔ 30 ستمبر 2017ء کو شکار پر گئے تھے اور سر کریکس کے متنارعہ علاقے میں بھارتی سمندری حدود کے قریب ان کو بھارتی بحریہ نے گرفتار کرلیا تھا۔ ان کے ساتھ ناخدا محمد علی اور دیگر ماہی گیر بھی تھے۔ بھارتی جیل میں جانے کے بعد سے ان کا کوئی خط نہیں ملا اور نہ ہی فون پر رابطہ ہوا تھا‘‘۔ حمیدہ بیگم کا کہنا تھا کہ ’’میں اور میرے گھر والے پاکستان حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شہید کی میت جلد از جلد کراچی لائی جائے۔ تاکہ قانونی کارروائی کر کے ہم لوگ بھارتی وزیر اعظم کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرائیں‘‘۔ شہید ماہی گیر کے بیٹے نور محمد کا کہنا تھا کہ وہ فیکٹری میں کام کرتا ہے اور ماںکا سہارا بنا ہوا ہے۔ وہ والد کی میت کراچی آنے پر مودی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرانے تھانے جائے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے گھر میں کہرام مچا ہوا ہے۔ شہید ماہی گیر کی بیٹی پروین زوجہ یوسف کا کہنا تھا کہ ’’والد آخری بار مل کر گئے تھے کہ میں 10 روز تک شکار کر کے واپس آجاؤں گا۔ لیکن پلٹ کر نہیں آئے‘‘۔
کوسٹل میڈیا سیل کے ذمہ دار کمال شاہ کا کہنا تھا کہ ’’سرکاری اداروں کو خطوط لکھے ہیں کہ نورالامین کی میت کراچی لانے کیلئے کوشش تیز کی جائیں۔ کیونکہ اہل خانہ شدید غم سے دو چار ہیں۔ سندھ اور وفاقی حکومت، بھارتی جیلوں میں قید 127 سے زائد پاکستانی ماہی گیروں کی رہائی کو یقینی بنائے۔ ان میں کراچی کے 43 ماہی گیر شامل بھی شامل ہیں‘‘۔ ابراہیم حیدری کی پاک عالم ہمدرد فشرمین تنظیم کے چیئرمین شاہنواز کا کہنا تھا کہ ’’شہید ماہی گیر کی اہلیہ کی سرکاری سطح پر کوئی امداد نہیں کی جارہی۔‘‘ تنظیم کے ذمہ دار فرید ہمدرد کا کہنا تھا کہ نورالامین کی میت واپس لانے کیلئے متعلقہ حکام کو لیٹرز لکھے ہیں اور اہل خانہ سے رابطے میں بھی ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment