بھرچونڈی شریف میں ہر سال سینکڑوں ہندو مسلمان ہوتے ہیں

عظمت علی رحمانی
سندھ کے علاقے ڈھرکی میں واقع خانقاہ بھرچونڈی شریف میں سالانہ سینکڑوں ہندو افراد مسلمان ہوتے ہیں۔ لبرل لابی ہندو لڑکیوں کے قبو ل اسلام کو غلط رخ دے کر پروپیگنڈا کرتی ہے۔ مسلمان ہونے والوں میں نصف تناسب لڑکوں کا ہے۔
خانقاہِ عالیہ بھرچونڈی شریف ایک بار بھر ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہے۔ ہمیشہ کی طرح اب بھی لبرل لابی کی جانب سے پروپیگنڈ ا کیا جارہا ہے کہ نو مسلم روینا (اسلامی نام آسیہ) اور رینا (اسلامی نام نادیہ) کو اغوا کیا گیا اور ان کو زبردستی مسلمان کیا گیا۔ اس کے بعد یہ کہا گیا کہ ان کی عمریں کم ہیں۔ اس کے سا تھ ہی یہ پروپیگنڈا بھی زوروں پر ہے کہ ہمیشہ ہندو لڑکیاں ہی کیوں اسلام قبول کرتی ہیں، لڑکے اسلام قبول کیوں نہیں کرتے؟ اس حوالے سے ’’امت‘‘ کی جانب سے خانقاہِ عالیہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین پیر میاں جاوید اقبال سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’میں اسلام آباد آیا ہوں اور ریکارڈ خانقاہ میں موجود ہے۔ اس لئے کنفرم تعداد نہیں بتا سکتا۔ مگر یہاں ہر سال غیر مسلم افراد مسلمان ہونے آتے ہیں۔ ہم ان کی تصویر لیتے ہیں، ان کا نام عمر وغیرہ درج کرتے ہیں اور مسلمان کرنے کے بعد ان کا اسلامی نام رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں سرٹیفکیٹ بھی دیتے ہیں، تاکہ نادرا سمیت دیگر دستاویزات میں تبدیلی مذہب کا اندراج کرانے میں کام آسکے۔ یہ بات کنفرم ہے کہ مسلمان ہونے والوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کا تقریباً برابر ہے‘‘۔
ہندوئوں کو مسلمان کرنے کے معاملے پر پیپلز پارٹی کو خیرباد کہنے والے پیر میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو نے رابطہ کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا… ’’ہم نے ایک روز قبل پریس کانفرنس کی ہے، جس میں صحافیوں کے سامنے نو مسلم لڑکوں کو پیش کیا تھا، تاکہ وہ خود ان سے سوالات کرکے پوچھ لیں کہ لڑکے بھی مسلمان ہوتے ہیں یا نہیں اور کیا ان سے کوئی زبرستی کی جاتی ہے یا نہیں؟‘‘۔
صحافیوں کے سامنے پیش کئے جانے والے نو مسلم محمد علی کا کہنا تھا کہ ’’میں نے 2013ء میں درگاہ عالیہ بھرچونڈی شریف میں اسلام قبول کیا تھا۔ میں ضلع لاڑکانہ کے تعلقہ رتو ڈیروکا رہائشی ہوں۔ ہمارے محلے میں مسلمان بھی رہتے ہیں، جن کو دیکھ کر مجھے بھی لگا کہ یہ مذہب ٹھیک ہے۔ کیونکہ ہندو بت پرستی کا مذہب ہے۔ یعنی جس کو ہم بناتے ہیں، اسی کی عبادت بھی کرتے تھے۔ یہ چیز مجھے سمجھ نہیں آئی۔ پھر یہ کہ مسلمانوں کے اندر ذات پات کا کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر ہندوئوں میں ذات پات کا بہت فرق ہے۔ شودر، برہمن، ٹھاکر، باگڑی اور بھیل وغیرہ ایک دوسرے سے بڑا تعصب کرتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں میں سب ایک ساتھ کھڑے ہوکر عبادت کرتے ہیں۔ میں جب یہاں آیا تو میاں اسلم سے ملا۔ انہوں نے کہا کیوں مسلمان ہونا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ پیسے لے کر گھر جاؤ اور اگر گھر والوں سے کوئی مسئلہ ہوا ہے تو میں حل کرا دیتا ہوں۔ سوچو اور پڑھو، پھر آنا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں خود آیا ہوں اور اگر آپ مسلمان نہیں کرنا چاہتے تو میں کہیں اور چلا جاتا ہوں۔ جس کے بعد انہوں نے مجھے مسلمان کیا۔ زبردستی والے الزام پر میں یہی کہوں گا کہ آج کل میڈیا کا دور ہے اور یہاں کسی کی مرغی چوری ہوجائے تو سب کو علم ہوتا ہے۔ مگر کوئی ایک بندہ بھی ایسا سامنے نہیں آیا جس کو زبردستی مسلمان کیا گیا ہو‘‘۔
ایک نو مسلم کا کہنا تھا کہ ’’میرا نام شبیر احمد ولد وزیر احمد ہے۔ میں ڈھرکی میں رہتا ہوں۔ میں ابو کے ساتھ آیا تھا اور خاندان کے دیگر لوگ بھی ہمراہ تھے۔ ہم سب نے کلمہ شریف پڑھا تھا، جس کے بعد میری شادی بھی سائیں نے کرائی تھی۔ اب میرے 3 بچے ہیں۔ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ یہاں زبردستی مسلمان کرایا جاتا ہے۔ اسلام کوئی انجکشن نہیں جو کسی ہندو کو لگایا جائے گا اور وہ مسلمان ہو جائے گا‘‘۔
ایک نو مسلم نے بتایا کہ ’’میرا نام قمردین ہے۔ میں نے 7 ماہ قبل اپنی رضا و خوشی سے اسلام قبول کیا ہے۔ الحمد للہ ہماری زندگی سکون سے گزر رہی ہے۔‘‘ ایک نو مسلم محمد ابراہیم کا کہنا تھا کہ ’’میں ڈھرکی کا رہائشی ہوں اور ڈیڑھ برس قبل اسلام قبول کیا تھا۔ ہندو جب اپنے مردوں کو جلاتے ہیں اور جب اس کا جسم پھٹتا ہے تو اس وقت احسا س ہوا کہ مسلمان بہت اچھے ہیں کہ وہاں بڑے اچھے طریقے سے مردے کو دفناتے ہیں۔ میں نے پھر مسلمان دوستو ں سے بات چیت شروع کی اور یوں میں مسلمان ہوا۔‘‘ ایک نو مسلم ابراہیم کا کہنا تھا کہ ’’اگر کسی کو زبردستی اسلام قبول کرایا گیا تو وہ میڈیا میں کیوں نہیں جاتا؟ زبردستی کا الزام جھوٹ ہے۔‘‘
اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے گفتگو کے دوارن میاں اسلم ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’’میں اسلام آباد میں موجود ہوں۔ میرے پاس جو ڈیٹا فی الوقت موجود ہے، اس اندراج رجسٹرڈ برائے نو مسلم کے مطابق سکنہ گاؤں نور آباد تحصیل صالح بٹ ضلع سکھر کے 26 سالہ سلیم ولد سومری نے 10 اپریل 2016ء کو اسلام قبول کیا تھا جس کا اسلامی نام قمرالدین رکھا گیا تھا۔ منتار بنگلاں چک نمبر 224، تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان کی 28 سالہ ملوکاں دختر گوکل بھیل نے اپنے شوہر ایدردیس کے ہمراہ 18ستمبر 2016ء کو اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے ساتھ 5 بچوں نے بھی اسلام قبول کیا جن میں نور محمد، خیر محمد، شیر محمد، فیض محمد اور شیر بانو (اسلامی نام) شامل ہیں۔ یارولند، تحصیل میرپورماتھیلو ضلع گھوٹکی کے 27 سالہ صوبو ولد ریجھومل نے 8 جون 2016ء کواسلام قبول کیا تھا، جن کا اسلامی نام نور محمد رکھا گیا۔ گوٹھ تاج محمد، گھوٹکی کے 24 سالہ محمو ولد گانی نے 11 دسمبر 2017ء کو اسلام قبول کیا جس کا اسلامی نام محمد عبداللہ رکھا گیا۔ ٹنڈو محمد خان کی رہائشی 28 سالہ زرینہ دختر ڈولو واگری نے 7 جولائی 2016ء کو اسلام قبول کیا تھا۔ گھوٹکی کے 33 سالہ رتو بھیل ولد ہوبھیل نے 21 نومبر 2018ء کو اسلام قبول کیا جس کا اسلامی نام خیر محمد رکھا گیا۔ گھوٹکی کی رہائشی 28 سالہ رامی ڑی نے 21 نومبر 2018ء کو اسلام قبول کیا جس کا اسلامی نام مائی احمر رکھا گیا تھا۔ رحیم یار خان کے علاقے غلام اقبال ٹاؤن کی رہائشی 30 سالہ جیسمن مسیح نے 22 فروری 2016ء کو اسلام قبول کیا تھا، جس کے بعد ان کا اسلامی نام شہاز اختر رکھا گیا تھا۔ گاؤں جوگیاں، چک نمبر 92، رحیم یار خان کے 25 سالہ نیتو جی ولد پوران جی نے 5 مئی 2015ء کواسلام قبول کیا تھا جس کے بعد ان کا اسلامی نام محمد فیض رکھا گیا تھا۔ محلہ بلدیہ ،سینٹرل جیل حیدرآباد کے43 سالہ یوسف ولد ولایت مسیح نے یکم جولائی 2017ء کو اسلام قبول کیا تھا جس کا اسلامی نام محمد یوسف رکھا گیا تھا۔ ضلع کشمور کے تعلقہ بخش کے رہائشی 15سالہ محمد طیب نے 5 ستمبر 2017ء کو اسلام قبول کیا تھا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment