رمیش کمار ذاتی مفاد کے لئے تعصب کو ہوا دے رہے ہیں

نمائندہ امت
گھوٹکی سے اسلام آباد آنے والی دو نو مسلم بہنوں کو سیکٹر ایچ ایٹ میں واقع وزارت انسانی حقوق کے شیلٹر ہوم میں رکھا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر انسانی حقوق کمیشن کو ان کا نگران مقرر کیا تھا۔ نو مسلمہ آسیہ اور نادیہ کا بھائی اور دیگر ہندو رشتہ دار بھی دو روز سے اسلام آباد میں ہیں، لیکن کسی کو بھی ان دونوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے شوہر صفدر علی اور برکت علی بھی اسلام آباد میں ہیں، لیکن وہ بھی ان سے نہیں مل سکتے۔ البتہ ان نو مسلم لڑکیوں کے وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ قانون کے مطابق ان سے ملنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار ان لڑکیوں کے معاملے کو مذہبی تعصب کا رنگ دینے کیلئے پوری طرح متحرک ہیں اور ذاتی مفاد کیلئے تعصب کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے ہندو ووٹ پکے کرنے کیلئے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں دو الگ الگ بل جمع کرائے ہیں، جن میں مذاہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔ جبکہ انہوں نے ایک قرارداد بھی جمع کرائی ہے، جس میں مبینہ اغوا کاروں کے سہولت کاروں کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مذہبی تعصب کو بڑھاوا دینے کیلئے متحرک رمیش کمار کے دونوں بل اور قرارداد کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بالکل درست، لیکن بدنیتی پر مبنی ہیں۔ دوسری جانب ایک نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے کہا ہے کہ درگاہ چونڈی شریف (جہاں ان ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کیا) پر چھاپہ مارا جائے، وہاں غیر مسلم لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ رمیش کمار نے بھارت کے دورے میں نریندر مودی سے ملاقات کے بعد پاکستان آکر کہا تھا کہ ’’بھارتی وزیراعظم سے خیرسگالی کا پیغام لے کر آیا ہوں‘‘۔ لیکن اس کے دوسرے ہی دن پلوامہ میں خودکش حملے کا ڈرامہ رچایا گیا، جس کے نتیجے میں دو ایٹمی قوتیں اب تک جنگ کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ ذرائع کے بقول رمیش کمار محض اپنا ہندو ووٹ بینک مضبوط بنانے کیلئے مذہبی تعصب کو ہوا دے رہے ہیں اور خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ثابت کرنے کیلئے بھی کوشاں ہیں۔ درگاہ بھرچونڈی شریف کے پیر عبدالحق عرف میاں مٹھو کے صاحبزادے میاں اسلم ایڈووکیٹ نے رمیش کمار کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی کو زبردستی مسلمان کرنے کا الزام ثابت ہوجائے تو ہر سزا بھگتنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے درگاہ شریف میں لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔ کچھ برس قبل وزیر اعلی سندھ کے آفس کا ایک ہندو ملازم مسلمان ہوا اور اس کی مسلمان لڑکی سے شادی ہوئی تھی۔ اب اس کے بچے بھی ہیں۔ اس کے قبول اسلام پر تو کوئی آواز نہیں اٹھی، لیکن بعض اوقات معاملات کو بلاوجہ اچھالا جاتا ہے۔
راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے بھی گزشتہ روز درگاہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین پیر میاں جاوید اقبال اور پیر میاں اسلم ایڈووکیٹ سے ملاقات کی اور اس ساری صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے راؤ عبدالرحیم ایڈوکیٹ نے کہا کہ رمیش کمار ہندو مسلم تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ہندئووں کے دل میں مسلمانوں کا خوف پیدا کر کے اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی سیاست اور انتخابی کامیابی کا انحصار ہندئوں کے ووٹوں پر ہے اور بدقسمتی سے وہ آئندہ بھی اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے غلط رُخ پر چل رہے ہیں۔ راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ رمیش کمار نے مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام اور اقلیتوں کے تحفظ کیلئے جو دو بل اسمبلی میں پیش کئے ہیں، وہ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ اسلام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے ان کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی غیر مسلم کو زبردستی دائرہ اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا، یہ شرعاً بالکل غلط ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی اقلیتوں کو ان کے جان و مال کا تحفظ دیا گیا ہے۔ لیکن رمیش کمار محض اپنی سیاست کو دوام بخشنے کیلئے بدنیتی پر مبنی اقدامات کررہے ہیں۔ جب کسی کو اغوا ہی نہیں کیا گیا اور لڑکیاں عدالت اور ٹی وی کیمروں کے سامنے سینکڑوں افراد کی موجودگی میں مرضی سے اسلام قبول کرنے اور اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اقرار کررہی ہیں تو اغوا کاروں کے سہولت کاروں کو سزا دلانے کیلئے قرارداد جمع کرانے کا مقصد محض ذاتی شہرت اور اپنی سیاست چمکانے کی کوشش ہے، جو افسوسناک عمل ہے۔ راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کو مشورہ دیا کہ وہ اس مسئلے کو حقیقت کے تناظر میں دیکھیں اور تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ عدالتیں آزاد ہیں، اپنی زندگی کے بارے میں دونوں بہنوں کے فیصلے کا ہم سب کو احترام کرنا چاہئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو احکامات جاری کئے ہیں، اس کے بعد اس معاملے کو متنازعہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ اقلیتی رکن اسمبلی سمیت ہم سب کو انکوائری رپورٹ اور کیس کی اگلی سماعت کا انتظار کرنا چاہئے۔ درگاہ بھرچونڈی شریف پر چھاپہ مارنے کا مطالبہ کرنا اشتعال انگیزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر رمیش کمارکے الزامات غلط ثابت ہوئے تو پھر وہ اپنے لئے سزا بھی تجویز کردیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment