شہباز نے نواز کا بیانیہ تبدیل کرانے کے لئے والدہ کی مدد لی

امت رپورٹ
ووٹ کو عزت دو سے متعلق نواز شریف کا جارحانہ بیانیہ تبدیل کرانے میں والدہ نے کلیدی رول ادا کیا۔ جبکہ اس کے لئے کوششیں شہباز شریف کی تھیں۔ شریف خاندان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ایشو پر سیریس خاندانی مسئلے پیدا ہو گئے تھے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا مؤقف تھا کہ شریف خاندان کو موجودہ حالات تک پہنچانے کی ذمہ دار مریم نواز شریف ہیں اور انہیں اپنے والد نواز شریف کی سپورٹ حاصل ہے۔ لیکن جس راستے پر چلا جارہا ہے، وہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول دوسری جانب نواز شریف اور مریم نواز دونوں اپنے جارحانہ بیانیہ کو جاری رکھنے پر بضد تھے۔ بعد ازاں یہ مسئلہ اتنی سنگین شکل اختیار کرگیا کہ خاندان ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ ایسے موقع پر خاندان کی سربراہ بیگم شمیم اختر نے معاملے کو سنبھالا۔ ذرائع کے بقول شہباز شریف نے اپنے مؤقف پر اپنی والدہ بیگم شمیم اختر کو قائل کرلیا۔ اس کے بعد ہی برف پگھلنے کا عمل شروع ہوا اور نواز شریف اور مریم نواز کے جارحانہ بیانیہ میں تبدیلی آئی اور دونوں نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ دونوں باپ بیٹی اگرچہ دل سے اب بھی اپنے پرانے جارحانہ بیانیہ کے ساتھ ہیں۔ لیکن خاندانی مجبوریاں اور بالخصوص والدہ کی ہدایت ان کی پیروں کی زنجیر بن چکی ہیں۔ یہ بات اوپن سیکرٹ ہے کہ نواز شریف اپنی والدہ کی کوئی بات ٹالتے نہیں۔ لہٰذا وقت کی نزاکت کے پیش نظر بیانیہ بدلنے سے متعلق والدہ کی ہدایت کے آگے بھی نواز شریف نے سر تسلیم خم کرلیا۔ ذرائع کے مطابق یہ سلسلہ اس وقت ہی شروع ہوگیا تھا، جب گزشتہ برس ستمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزائیں معطل ہونے پر نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر جیل سے رہا ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ اس رہائی کے بعد نواز شریف اور مریم نواز نے پراسرار خاموشی اختیار کرلی تھی۔ حتیٰ کہ ایک عرصے تک مریم نواز کا ٹوئٹر اکائونٹ بھی خاموش رہا۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے والدہ کو یقین دلایا تھا کہ اگر ان کے مشورے کے مطابق بڑے بھائی چلتے رہے تو وہ شریف خاندان کو مشکلات سے نکال لیں گے۔ شہباز شریف نے والدہ کو یہ بھی باور کرایا تھا کہ اس وقت سخت یا جارحانہ مؤقف اپنانے کے لئے حالات موافق نہیں اور اس پالیسی سے فائدے کے بجائے معاملات مزید بگڑیں گے۔ ذرائع کے مطابق وعدے کے مطابق شہباز شریف بڑے میاں صاحب کو عارضی ریلیف دلاتے رہے اور یوں خاندان میں بھی ان کے مؤقف کو تسلیم کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ جبکہ اس سلسلے میں شہباز شریف نے پارٹی میں اپنے ہم خیال رہنمائوں کی مدد بھی لی۔ پارٹی صدر کے ان میں ہم خیال رہنمائوں میں اب خواجہ آصف بھی شامل ہو چکے ہیں۔ تاہم پرویز رشید اور جاوید لطیف اب بھی دوسری طرف کھڑے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو ملنے والا حالیہ عبوری اور مشروط ریلیف بھی شہباز شریف کی پس پردہ کوششوں کا نتیجہ ہے اور یہ کہ طبی بنیادوں پر 6 ہفتے کی رہائی کے عرصے میں بھی نوازشریف خاموش رہیں گے۔
سابق وزیر اعظم نے اپنے شریف میڈیکل سٹی کمپلیکس میں علاج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ خاندانی اسپتال ان کی رہائش گاہ کے قریب واقع ہے اور نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان شریف میڈیکل سٹی کمپلیکس کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جس نوعیت کی بیماریاں، بالخصوص دل اور گردوں سے متعلق جو ایشوز نواز شریف کو در پیش ہیں۔ چھ ہفتوں میں ان کا علاج ممکن نہیں۔ لہٰذا غالب گمان ہے کہ طبی بنیادوں پر سابق وزیر اعظم کی ضمانت میں توسیع کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ جبکہ اس معاملے کو سیاسی پہلو سے دیکھنے والے ذرائع کادعویٰ ہے کہ میڈیکل گرائونڈ پر نوازشریف کی ضمانت میں توسیع ہوتی رہے گی۔ ویسے بھی جب ان کی چھ ہفتے کی ضمانت کی مدت پوری ہو رہی ہوگی تو ماہ رمضان آچکا ہوگا۔ اگر سابق وزیر اعظم کی طبیعت کی مسلسل خرابی سے متعلق ٹھوس میڈیکل رپورٹس ہائی کورٹ میں پیش کردی جاتی ہیں تو قانونی نقطہ گاہ سے بھی ضمانت میں توسیع کے لئے نواز شریف کا کیس مضبوط ہوگا۔
ذرائع نے بتایا کہ اپنے جارحانہ بیانیہ کو ترک کر کے شہباز شریف کی وضع کردہ مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے والے نواز شریف کو جب دوسری بار دسمبر 2018ء کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں جیل ہوئی تو اعتماد کی دیواروں میں ایک بار پھر دراڑیں پڑنے لگی تھیں۔ بالخصوص جب یہ جیل طویل ہوتی چلی گئی اور علاج کے حوالے سے نواز شریف کے بقول انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا جانے لگا تو ان کا شکوہ حکومت سے زیادہ اپنے بھائی شہباز شریف اور پارٹی کے لیڈروں سے تھا۔ اس عرصے کے دوران نواز شریف سے جیل میں ملاقات کرنے والے کم از کم تین لیگی رہنمائوں نے تصدیق کی کہ ’’میاں صاحب، پارٹی لیڈروں سے بہت زیادہ خفا ہیں‘‘۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کی اصل برہمی یہ تھی کہ ان کے نام پر ووٹ لے کر ایوان میں پہنچنے والے پارٹی ارکان پارلیمنٹ زیادہ شدت سے ان کا معاملہ اسمبلی یا سینیٹ میں نہیں اٹھا رہے۔ بالخصوص علاج کے حوالے سے حکومت نے ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تاہم نواز شریف کی اس ناراضگی کا شہباز شریف اور ارکان پارلیمنٹ نے سنجیدگی سے نوٹس لیا اور اپنی کوتاہی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارٹی صدر اور شہباز شریف نے نواز شریف کو یقین دلایا تھا کہ وہ انہیں ریلیف دلانے کے لئے قانونی جدوجہد سمیت ہر قسم کی کوششیں کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے قریبی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس بار میڈیکل گرائونڈ پر اپنی ضمانت منظور ہونے کا نواز شریف کو حد درجہ یقین تھا۔ حتیٰ کہ انہوں نے اظہار یکجہتی کے لئے 23 مارچ کو کوٹ لکھپت جیل آنے والے کارکنوں کو بھی روک دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود اس ہدایت کو نظر انداز کر کے سو ڈیڑھ سو کارکنان جیل پہنچ گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کو خدشہ تھا کہ یوم پاکستان پر جیل کے سامنے کارکنان کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں ان کی ضمانت کا معاملہ لٹک سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک قریبی پارٹی رہنما کو خود کہا کہ مظاہرے سے عدالت پر دبائو ڈالنے کا تاثر جائے گا۔ لہٰذا کارکنان کو آنے سے روکا جائے۔ حالانکہ قبل ازیں نواز شریف خود ہی کارکنان کو اس نوعیت کی کالیں دیا کرتے تھے۔ ذرائع کے بقول اپنے طور پر23 مارچ کو کوٹ لکھپت جیل پہنچنے والے کارکنان کو اس وقت شدید حیرانی اور مایوسی ہوئی، جب نواز شریف سے ملنے کے لئے آنے والی مریم نواز واپسی میں خاموشی کے ساتھ جیل کے عقبی راستے سے نکل گئیں۔ ذرائع نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ اس بار نواز شریف کو اپنی ضمانت کا یقین کیوں تھا؟ یاد رہے کہ پہلی سماعت کے موقع پر سابق وزیر اعظم کو ضمانت نہیں مل سکی تھی۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف ’’بی‘‘ ٹیم بننا چاہتے ہیں۔ نون لیگ کے صدر کو امید ہے کہ عمران خان اینڈ کمپنی اپنے طرف داروں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے گی اور یہی وہ موقع ہوگا، جب انہیں دوبارہ سسٹم میں لایا جائے گا اور کم از کم پنجاب نون لیگ کو دے دیا جائے گا۔ جس میں ان کی پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی تھی۔ تاہم ادھر ادھر سے ارکان جمع کر کے اور اتحادیوں کو ملا کر یہ برتری ختم کی گئی۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں شہباز شریف مسلسل رابطوں میں ہیں۔ ان ہی رابطوں کے سبب نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد شہباز شریف پر اپنے قابل اعتماد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنانے کو ترجیح دی تھی۔ لیکن اب شہبازشریف کے یہی تعلقات نواز شریف کو عبوری ریلیف دلانے میں کام آرہے ہیں۔ تاہم اب بھی شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی سے اختلاف رکھنے والے پارٹی لیڈر بند کمروں میں یہ ڈسکس کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر پارٹی کی صدارت بھی شہبازشریف کے بجائے شاہد خاقان عباسی کو دے دی جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور بقول ان کے ایک ایسی پارٹی، جو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اب بھی مقبول ہے اور اس کے پاس اسٹریٹ پاور بھی ہے، وہ یوں بیک فٹ پر نہیں جاتی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment