سیدنا سعدؓ کی سعادت مندی

رمضان المبارک 2 ہجری میں بدر کے میدان میں کفر وحق کا معرکۂ اوّل پیش آیا تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اس میں والہانہ جوش و خروش سے حصہ لیا۔ اثنائے جنگ میں ان کا مقابلہ قریش کے نامی بہادر سعید بن عاص سے ہوگیا، انہوں نے آناً فاناً سعید کو خاک و خون میں لوٹا دیا اور اس کی مشہور تلوار ذوالکتیفہ پر قبضہ کر لیا۔ یہ تلوار لے کر حضورِ اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت تک مالِ غنیمت کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لیے حضورؐ نے حضرت سعدؓ کو حکم دیا کہ یہ تلوار جہاں سے اُٹھائی ہے، وہیں رکھ دو۔ حضرت سعدؓ نے فوراً تعمیلِ ارشاد کی، لیکن ان کو اس تلوار کے نہ ملنے پر بڑا ملال ہوا۔ ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ سورۃ انفال نازل ہوئی، جس میں یہ حکم تھا۔
ترجمہ: ’’تو جو تم نے لوٹا ہے اب کھاؤ کہ حلال طیب ہے۔‘‘
حضور اکرمؐ نے حضرت سعدؓ کو بُلا بھیجا اور فرمایا: جاؤ اپنی تلوار لے لو۔
غزوۂ بدر میں حضرت سعدؓ کے نو عمر بھائی عمیرؓ کو حق تعالیٰ نے رتبہ شہادت پر فائز کیا۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ لڑائی سے پہلے میں نے عمیرؓ کو دیکھا کہ اِدھر اُدھر چھپتا پھرتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا، عمیر کیا بات ہے؟ کہنے لگا، بھائی جان میری عمر کم ہے، اس لیے ڈرتا ہوں کہ کہیں رسول اقدسؐ مجھے لڑائی میں حصہ لینے سے روک نہ دیں، حالانکہ میری دلی تمنا ہے کہ میں راہِ حق میں لڑوں۔ شاید رب تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے۔ عمیرؓ کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ حضور اقدسؐ نے اُن کی کم عمری کی وجہ سے واپس جانے کا حکم دیا۔ عمیرؓ رونے لگے۔ حضورؐ کو ان کے شوق اور رونے کا حال معلوم ہوا تو آپؐ نے ان کو لڑائی میں شریک ہونے کی اجازت دیدی۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ عمیرؓ کے چھوٹے ہونے اور تلوار کے بڑا ہونے کی وجہ سے میں اس کے تسموں میں گرہیں لگاتا تھا کہ اُونچی ہو جائے۔ عمیرؓ لڑائی میں مردانہ وار لڑے اور دشمن کے نامور پہلوان عمرو بن عبدِ ودّ کے ہاتھوں جامِ شہادت پایا۔ حضرت سعدؓ کو عمیرؓ سے بے پناہ محبت تھی۔ اُن کی شہادت ان کے لیے صدمۂ جانکاہ سے کم نہ تھی، لیکن وہ صبر کرکے خاموش ہوگئے۔ لڑائی میںمشرکین کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ ان کے ستر (70) آدمی قتل ہوئے اور ستر (70) کو مسلمانوں نے قیدی بنا لیا۔ ان میں سے تین آدمیوں (حارث بن حرہ، سالم بن شماع اور فاکہہ) کو تنہا حضرت سعدؓ نے قیدی بنایا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment