مجھ سے اپنا بدلہ لے لو

امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کی خلافت کا زریں عہد تھا، مسلمان فتوحات پر فتوحات حاصل کررہے تھے۔ امیر المومنین مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔ حکم یہ تھا کہ جنگوں کے بارے میں فوری معلومات دی جائیں اور ہدایات لی جائیں۔ جنگ کا جو بھی نتیجہ ہو، فوری طور پر ہیڈ کوارٹر میں اطلاع دیں۔
سیدنا احنف بن قیسؓ کا بیان ہے کہ ہم چند لوگ ایک عظیم خوشخبری سنانے کے لئے امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دریافت فرمایا: آپ لوگوں نے کون سی جگہ قیام فرمایا؟ ہم نے عرض کی : فلاں جگہ۔
امیر المومنینؓ ہمارے ساتھ ہمارے پڑائو کی طرف چلنے لگے جہاں ہم نے اونٹوں کو بھی باندھ رکھا تھا اور اونٹوں کی حالت یہ تھی کہ مسلسل بھوک کی شدت سے وہ کمزور ہو چکے تھے اور کئی دنوں کے سفر نے نہیں تھکا دیا تھا۔ اونٹوں کی حالت زار دیکھتے ہی امیر المومنینؓ گویا ہوئے۔
’’کیا تمہیں ان سواریوں کے بارے میں خدا تعالیٰ سے ڈر نہیں لگتا؟ کیا تمہیں اس بات کی خبر نہیں ہے کہ ان چوپایوں کے بھی تمہارے اوپر حقوق ہیں؟ تم نے ان انٹوں کو راستے میں کچھ دیر آرام کیلئے کیوں نہ چھوڑ دیا تاکہ یہ زمین کی نباتات کھالیتے!‘‘
ہم نے عرض کی: ’’امیر المومنین! عظیم فتح و کامرانی کی خوشخبری لے کر ہم تیزی کے ساتھ بھاگتے دوڑتے آپ کی خدمت میں چلے آئے ہیں تاکہ آپ اور دیگر مسلمانوں کو اس خوشخبری سے خوشی ہو اور ان کا کلیجہ ٹھنڈا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں نے راستے میں اپنی سواریوں کو روکنا گوارا نہیں کیا۔‘‘
امیر المومنینؓ ہماری باتیں سن کر لوٹ گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ اسی دوران میں ایک آدمی شکایت لے کر حاضر ہو گیا اور کہنے لگا: امیر المومنین! فلاں شخص نے مجھ پر ناحق ظلم و زیادتی کی ہے، آپ اس کے خلاف میری مدد کریں۔
امیر المومنینؓ نے اپنا کوڑا بلند کیا اور اس کے سر پر دے مارا اور فرمانے لگے:
’’عجب تماشا ہے کہ تم لوگ (خالی اوقات میں) عمر کے سامنے اپنا قضیہ پیش نہیں کرتے ہو، مگر جب عمر مسلمانوں کے اہم معاملات کو سلجھانے میں مصروف ہو جاتا ہے تو پھر تم آکر کہنے لگتے ہو کہ میری مدد کرو، میری مدد کرو!‘‘
چنانچہ وہ آدمی خود کو ملامت کرتے ہوئے واپس ہوگیا۔ امیر المومنینؓ نے فوراً ہی اس آدمی کو واپس بلانے کا حکم دیا۔ جب وہ واپس آیا تو آپؓ نے اپنا کوڑا اس آدمی کے آگے ڈال دیا اور کہنے لگے: ’’مجھ سے اپنا بدلہ لے لو‘‘ وہ کہنے لگا: نہیں میں بدلہ نہیں لوں گا بلکہ میں اسے خدا کیلئے اور آپ کیلئے چھوڑتا ہوں۔ امیر المومنینؓ نے فرمایا: ایسا نہیں ہوگا، یا تو تم خدا کیلئے درگزر کرو اور اس کا بدلہ اسی سے مانگو، بصورت دیگر مجھ پر چھوڑ دو (پھر ایسی صورت میں تمہیں مجھ سے قصاص لینا پڑے گا) وہ کہنے لگا، نہیں نہیں، میں خدا کی رضا اور خوشنودی کیلئے معاف کرتا ہوں۔
اس کے بعد امیر المومنینؓ وہاں سے چل پڑے اور گھر پہنچے۔ ہم لوگ بھی آپؓ کے ہمراہ تھے۔ آپؓ نے دو رکعت نماز ادا فرمائی اور خود کو مخاطب کر کے کہنے لگے:
’’ابن الخطاب! تو ایک خاکسار و متواضع آدمی تھا تو خدا تعالیٰ نے تجھے اعلیٰ مقام و مرتبے سے نوازا۔ تو گم گشتہ راہ تھا تو رب تعالیٰ نے تجھے ہدایت کی روشنی سے آشنا کیا۔ تو ایک کم تر انسان تھا تو حق تعالیٰ نے تجھے عزت و اکرام بخشا اور پھر لوگوں پر حکمران بنایا۔ مگر جب ایک آدمی اپنے اوپر ظلم کرنے والے کے خلاف تجھ سے تعاون طلب کرنے کیلئے حاضر ہوا تو تو نے اس کی پٹائی کر دی۔ ذرا بتا کہ کل قیامت کے روز تو اپنے پروردگار کو کیا جواب دے گا؟‘‘
احنف بن قیسؓ کا بیان ہے: امیر المومنینؓ نے یہ کہہ کر اپنے اوپر اس طرح ملامت کی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ آپ پوری دنیا والوں میں اس وقت سب سے بہتر ہیں۔ (قصص العرب: 13-14/3)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment