جنت کے کرتے کا کرشمہ

حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں مذکور ہے کہ جب باذن خدا وندی جب آپؑ نے اپنا راز بھائیوں پر ظاہر فرمایا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں تو بھائیوں نے آپؑ سے معافی مانگی۔ آپؑ نے نہ صرف یہ کہ معاف کر دیا، بلکہ گزشتہ واقعات پر کوئی ملامت کرنا بھی پسند نہ کیا۔ ان کے لیے حق تعالیٰ سے دعا کی اور اب والد سے ملاقات کی فکر ہوئی۔
حالات کے لحاظ سے مناسب یہ سمجھا کہ والد صاحبؑ ہی مع خاندان کے یہاں تشریف لائیں، مگر معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی بینائی اس مفارقت میں جاتی رہی، اس لیے سب سے پہلے اس کی فکر ہوئی اور بھائیوں سے کہا:
’’تم میرا یہ کُرتا لے جائو اور میرے والد کے چہرے پر ڈال دو، تو ان کی بینائی عود کر آئے گی۔‘‘ (سورۃ یوسف)
یہ ظاہر ہے کہ کسی کے کُرتے کا چہرے پر ڈال دینا بینائی کے عود کرنے کا کوئی مادی سبب نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ ایک معجزہ تھا، حضرت یوسف علیہ السلام کا کہ ان کو باذن خدا وندی معلوم ہوگیا کہ جب ان کا کُرتہ والد کے چہرے پر ڈالا جائے گا تو رب تعالیٰ ان کی بینائی بحال فرما دیں گے۔
ضحاک اور مجاہد وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اس کُرتے کی خصوصیت تھی، کیونکہ یہ عام کپڑوں کی طرح نہ تھا، بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جنت سے اس وقت لایا گیا تھا جب ان کو برہنہ کرکے نمرود نے آگ میں ڈالا تھا، پھر یہ جنت کا لباس ہمیشہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس محفوظ رہا اور ان کی وفات کے بعد حضرت اسحق علیہ السلام کے پاس رہا۔ ان کی وفات کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا۔ آپؑ نے اس کو ایک بڑی متبرک شے کی حیثیت سے ایک نلکی میں بند کرکے یوسف علیہ السلام کے گلے میں بطور تعویذ کے ڈال دیا تھا تاکہ نظر بد سے محفوظ رہیں۔
برادران یوسف نے جب ان کا کُرتہ والد کو دھوکہ دینے کے لیے اتار لیا اور وہ برہنہ کرکے کنویں میں ڈال دیئے گئے تو جبرئیل امین تشریف لائے اور گلے میں پڑی ہوئی نلکی کھول کر اس سے یہ کرتہ برآمد کیا اور یوسف علیہ السلام کو پہنا دیا اور یہ ان کے پاس برابر محفوظ چلا آیا۔ اس وقت بھی جبرئیل امینؑ ہی نے یوسف علیہ السلام کو یہ مشورہ دیا کہ یہ جنت کا لباس ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ نابینا کے چہرے پر ڈال دو تو وہ بینا ہو جاتا ہے اور فرمایا کہ اس کو اپنے والدؑ کے پاس بھیج دیجیے تو وہ بینا ہو جائیں گے۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن و جمال اور ان کا وجود خود جنت ہی کی ایک چیز تھی، اس لیے ان کے جسم سے متصل ہونے والے ہر کُرتے میں یہ خاصیت ہو سکتی ہے۔ (مظہری)
پھر بھائیوں سے فرمایا: ’’تم سب بھائی اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس مصر لے آئو۔‘‘ اصل مقصد تو والد محترم کو بلانے کا تھا، مگر یہاں بالتصریح والد کے بجائے خاندان کو لانے کا ذکر کیا، شاید اس لیے کہ والد کو یہاں لانے کے لیے کہنا ادب کے خلاف سمجھا اور یہ یقین تھا ہی کہ جب والد کی بینائی عود کر آئے گی اور یہاں آنے سے کوئی عذر مانع نہیں رہے گا تو وہ خود ہی ضرور تشریف لائیں گے۔ قرطبی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ برادران یوسفؑ میں سے یہودا نے کہا کہ یہ کُرتہ میں لے جائوں گا، کیونکہ ان کے کُرتے پر جھوٹا خون لگا کر بھی میں ہی لے گیا تھا، جس سے والد کو صدمات پہنچے، اب اس کی مکافات بھی میرے ہی ہاتھ سے ہونا چاہیے۔
’’جب قافلہ شہر سے باہر نکلا ہی تھا تو یعقوب علیہ السلام نے اپنے پاس والوں سے کہا کہ اگر تم مجھے بیوقوف نہ کہو تو میں تمہیں بتلائوں کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘ شہر مصر سے کنعان تک ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق آٹھ دن کی مسافت کا راستہ تھا اور حضرت حسنؒ نے فرمایا کہ اسی فرسخ یعنی تقریباً ڈھائی سو میل کا فاصلہ تھا۔ رب تعالیٰ نے اتنی دور سے قمیص یوسف کے ذریعے حضرت یوسفؑ کی خوشبو یعقوب علیہ السلام کے دماغ تک پہنچا دی اور یہ عجائب میں سے ہے کہ جب یوسف علیہ السلام اپنے وطن کنعان ہی کے ایک کنویں میں تین روز تک پڑے رہے تو اس وقت یہ خوشبو محسوس نہیں ہوئی۔ یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی معجزہ پیغمبر کے اختیار میں نہیں ہوتا، بلکہ درحقیقت معجزہ پیغمبر کا اپنا فعل و عمل بھی نہیں ہوتا۔ یہ براہِ راست فعلِ خدا ہوتا ہے، جب حق تعالیٰ ارادہ فرماتے ہیں تو معجزہ ظاہر کردیتے ہیں اور جب اذن خدا وندی نہیں ہوتا تو قریب سے قریب بھی بعید ہو جاتا ہے۔
’’حاضرینِ مجلس نے یعقوب علیہ السلام کی بات سن کر کہا کہ بخدا آپ تو اپنے اُسی پرانے غلط خیال میں مبتلا ہیں‘‘ کہ یوسف زندہ ہیں اور وہ پھر ملیں گے۔
’’ جب یہ بشارت دینے والا کنعان پہنچا‘‘ اور قمیص یوسفؑ کو یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دیا تو فوراً ان کی بینائی عود کر آئی۔ بشارت دینے والا وہی حضرت یوسف علیہ السلام کا بھائی یہودا تھا، جو ان کا کا کُرتہ مصر سے لایا تھا۔ (معارف القرآن)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment