مرزا عبدالقدوس
نو مسلم بہنوں کے بیانات لینے کیلئے انکوائری کمیٹی تاحال نہیں بنائی جا سکی ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق تاخیری حربوں کا مقصد آسیہ اور نادیہ پر دبائو ڈالنے کیلئے وقت حاصل کرنا ہے۔ اسی مقصد کیلئے جہاں نومسلم بہنوں سے ملاقات کیلئے پی ٹی آئی کے ایم این اے رمیش کمار کوشاں ہیں، وہیں اب پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری نے بھی دونوں نومسلم لڑکیوں سے ملاقات کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ سینیٹر کرشنا کماری نے پہلے وزارت داخلہ اور اب ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو خط لکھا ہے کہ وہ ان دونوں سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں۔ ادھر قانونی ماہرین کے مطابق ان حالات میں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آزادانہ اور منصفانہ انکوائری رپورٹ آئندہ منگل کو پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے، ان لڑکیوں سے ملاقات ان پر اور انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ ان دو مسلم بہنوں کے وکیل راؤ عبدالرحیم نے بھی اس ملاقات کی کوشش کو انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اس ملاقات پر سخت اعتراض ہوگا۔ ان کے والدین کی بھی ان سے ملاقات صرف اسی صورت میں قانونی طور پر ممکن ہے جب وہ خود اس ملاقات کی خواہش کا اظہار کریں۔ رائو عبدالرحیم کہتے ہیں کہ ’’میں ان کا وکیل ہوں، ان سے مل سکتا ہوں۔ لیکن میں نے ملاقات کے لئے رابطہ نہیں کیا کہ اس طرح دوسرے فریق یعنی ان کے والدین وغیرہ کو اعتراض کرنے کا موقع نہ ملے۔ لیکن سینیٹر کرشنا کماری کے ملنے کا کوئی جواز نہیں‘‘۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد کہا گیا ہے کہ میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے اس سلسلے میں رابطہ کروں۔ میں نے اس سلسلے میں ایک خط ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو کل (جمعرات کو) تحریر کیا ہے۔ اس کا جواب ملنے کے بعد صورت حال واضح ہوگی‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ ان لڑکیوں کے والدین کے ہمراہ ان لڑکیوں سے مل کر حقیقت جاننا چاہتی ہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں کے والدین ان کے پاس ہی ہیں، لیکن اس وقت کہیں باہر گئے ہیں۔ اس لئے ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ اس مختصر گفتگو کے بعد انہوں نے اپنی مصروفیت کی وجہ سے مزید بات کرنے سے معذرت کرلی۔
واضح رہے کہ دونوں نومسلم بہنوں آسیہ اور نادیہ کے شوہر ضمانت پر ہیں اور اسلام آباد میں ہی اپنے وکیل راؤ عبدالرحیم کے رابطے میں ہیں۔ تاکہ اگر انہیں انکوائری ٹیم طلب کرے تو وہ فوی طور پر دستیاب ہوں۔ ذرائع کے مطابق ابھی تک ان دونوں لڑکیوں کے بیانات نہیں لئے گئے اور نہ ہی اس کیلئے کسی انکوائری کمیٹی یا انکوائری ٹیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس صورت حال پر رائو عبدالرحیم ایڈوکیٹ کو شدید تحفظات ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان تاخیری حربوں کا مقصد ان کی مؤکلان کو ذہنی دباؤ میں لاکر ان کے موقف میں تبدیلی کی کوشش کرنا ہے۔ بعض اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ ایک پوری لابی ان کا اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کا بیان تبدیل کرانے کے لئے متحرک ہے۔ لیکن رائو عبدالرحیم کے بقول ’’یہ ہمارا تجربہ اور سامنے کی حقیقت ہے کہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے اسلام قبول کیا ہو اور بعد میں وہ واپس گیا ہو۔ ہمارے ملک میں بعض نو مسلموں کے نو ماہ تک بھی بیانات نہیں لئے گئے اور معاملے کو لٹکایا گیا۔ لیکن وہ قبول اسلام کے فیصلے پر ڈٹے رہے‘‘۔ ایک سوال پر راؤ عبدالرحیم نے کہا کہ ’’ان تاخیری حربوں پر مجھے اعتراض ہے۔ شفاف انکوائری کے لئے اس کے ممبران کے نام سامنے آنے چاہئیں اور انہیں اپنا کام شروع کرنا چاہئے۔ تاکہ منگل دو اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی جائے۔ ابھی تک تو ان لڑکیوں کا وکیل ہونے کے باوجود مجھے بھی علم نہیں کہ انکوائری کون کرے گا اور نہ ہی مجھ سے کسی نے رابطہ کیا ہے‘‘۔
نو مسلم بہنوں کی زندگی کو لاحق خطرات پر ڈیفس آف پاکستان نے بھی اظہار تشویش کیا ہے۔ ڈیفنس آف پاکستان کے چیئرمین حافظ احتشام احمد نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو عدالتوں میں پیشی اور حلفیہ بیانات دینے کے بعد اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ ان دونوں بہنوں نے اپنی مرضی اور مکمل آزادی کے ساتھ اسلام کو قبول کیا ہے۔ جس کے بعد جبری طور پر مذاہب کی تبدیلی کا پراپیگنڈا ناقابل برداشت ہے اور ایسا کرنے والے اسلام اور پاکستان کے غدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آسیہ اور نادیہ کی جانب سے قبول اسلام کے بعد اسلام دشمن قوتیں حواس باختہ ہوگئی ہیں۔ اسلامی ملک میں قبول اسلام کے خلاف قانون سازی ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ اور کلمۂ اسلام پر وجود میں آیا۔ اسلام مخالف کسی اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔ نو مسلم آسیہ اور نادیہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ کوئی طاقت ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ہم ان کا تحفظ کریں گے۔
٭٭٭٭٭