احمد خلیل جازم
گولیاں والی مسجد کے امام مولانا عبدالقدیر سے پوچھا کہ کیا یہ مسجد بھی اونچائی پر تعمیر کرائی گئی تھی، کیونکہ قدیم مغلیہ دور کی مساجد ہوں یا اس سے بھی قبل بنائی جانے والی مساجد، علاقے بھر میں سب سے اونچی جگہ پر بنائی جاتی تھیں۔ تو اس پر امام مسجد کا کہنا تھا ’’اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ چونکہ یہ قدیم محلہ ہے اور گھر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے وضاحت نہیں ہوتی۔ لیکن میرا گمان ہے کہ یہ مسجد محلے سے اونچی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب بھی بارش ہوتی ہے تو مسجد میں کسی جگہ بھی پانی نہیں ٹھہرتا۔ باقی محلے بھر میں پانی ٹھہرتا ہے۔ بارش کا پانی مسجد کے آگے اور پیچھے والی گلیوں میں جمع ہوکر تالاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ لیکن مسجد میں نہیں ٹھہرتا‘‘۔ امت ٹیم کے سامنے پینے کا پانی لایا گیا۔ پانی انتہائی میٹھا اور ٹھنڈا تھا۔ دائود نے بتایا کہ ’’یہ پانی مسجد میں موجود قدیم کنویں کا ہے۔ مسجد میں میونسپل کمیٹی کا پانی نہیں آتا۔ مسجد کے کنویں سے ہی وضو کا پانی لیا جاتا ہے۔ جبکہ محلے بھر کے لوگ بھی اسی کنویں سے پینے کا پانی لے کر جاتے ہیں‘‘۔ کیا یہ کنواں بھی مسجد کے ساتھ ہی تعمیر ہوا تھا؟ تو اس پر دائود نے کہا ’’اس حوالے سے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ظاہر ہے جب مسجد کی تعمیر ہوئی ہوگئی تو پانی کا بندوبست بھی رکھا گیا ہوگا۔ لیکن یہ بات میرے علم میں ہے کہ میرے لڑکپن میں اس کنویں کا پانی انتہائی خراب تھا۔ کوئی یہاں سے پانی پینا تو درکنار وضو کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ اس وقت امام مسجد محمود شاہ صاحب تھے۔ انہوں نے پچاس برس مسجد میں امامت کے فرائض کے ساتھ ساتھ مسجد کی خدمت بھی کی۔ انہوں نے کنواں بند کرادیا تھا۔ چنانچہ اسے ناقابل استعمال سمجھ کر قرآن کریم کے شہید اوراق اس میں ڈال دیئے جاتے۔ چونکہ کنویں کا منہ اتنا بڑا نہ تھا، کچھ فٹ کا منہ تھا، جس میں مسجد میں شہید ہونے والے قرآن کریم کے اوراق ڈال دئیے جاتے۔ آہستہ آہستہ یہ بالکل ختم ہوگیا۔ اوپر سے مکمل بند ہوگیا۔ اچانک ایک روز محلے داروں کو خیال آیا کہ کنویں کو آباد کیا جائے۔ چونکہ پنڈی میں پانی کی ہمیشہ سے قلت رہی ہے تو کسی کو خیال آیا کہ مسجد کا کنواں کھلوایا جائے۔ محمود شاہ مرحوم نے کہا کہ آپ بے شک کنواں آباد کریں۔ میں نے تو اسے بند کرادیا تھا کہ اس کا پانی ناقابل استعمال تھا۔ چنانچہ لوگوں نے کنواں دوبارہ کھولا۔ مکمل صفائی کی گئی۔ وہاں سے قرآن کریم کے شہید اوراق نکال لیے گئے اور کھدائی کرکے پانی نکالا گیا۔ اب اللہ کی ایسی شان دیکھنے کو آئی کہ کنویں سے ایسا میٹھا پانی نکلا کہ راولپنڈی میں شاید ہی کہیں ایسا میٹھا پانی ہو۔ مسجد اور محلے کے لوگ بہت خوش ہوئے۔ اب اس واقعے کو چالیس برس گزر چکے ہیں۔ کنواں مسلسل میٹھا پانی دے رہا ہے اور کبھی بھی اس میں پانی کم نہیں ہوا۔ جب بھی جس نے چاہا اپنی ضرورت کے مطابق پانی نکال لیا۔ اب یہی پانی پیا بھی جارہا ہے۔ ٹھنڈا بھی ہے، میٹھا بھی ہے۔ چائے بھی بن رہی ہے۔ اور اگر اس سے کوئی کپڑا دھونا چاہے تو منٹوں میں کپڑ ا بھی صاف کردیتا ہے۔ گرمیوں میں برف کی مانند ٹھنڈا اور سردیوں میں پانی نیم گرم ہوتا ہے‘‘۔ امام مسجد کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ’’یہی عالم مسجد کے اس حصے کا بھی ہے جو قدیم ہے۔ یعنی قدیم ہال گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم محسوس ہوتا ہے‘‘۔
جامع مسجد گولیاں والی کے کنویں کے بارے میں مراد خٹک کا کہنا ہے کہ ’’مسجد میں گولیوںکی ایک روایت کنویں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کے داخلی اور خارجی بڑے اور چھوٹے دروازوں کے قریب ایک کنواں تھا، جس پر سکھ بھی پانی بھرنے آتے تھے۔ (چونکہ اب یہ کنواں مسجد کے بیرونی صحن کے ایک کونے میں ہے تو یقین ہے اس وقت یہ حصہ مسجد میںشامل نہیں ہوگا، جبھی سکھ بھی پانی لیتے تھے)۔ مسلمانوں نے اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ مسلمانوں کو اگرچہ پانی پر اعتراض نہ تھا، لیکن سکھ جوتوں سمیت مسجد کی عمل داری میں بھی داخل ہوجاتے تھے، جس پر مسلمان سیخ پا ہو جاتے اور یوں اس پر لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ اسی طرح کی ایک لڑائی بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھی کہ بات ہاتھا پائی سے گولی کرپان تک آگئی۔ چنانچہ سکھوں نے اندھا دھند فائرنگ کی۔ جس وجہ سے مسجد کے مینار اور محراب میں گولیاں لگیں۔ لیکن اس راویت کو لوگ کم ہی درست مانتے ہیں‘‘۔ دائود سے سوال کیاکہ محلے کے لوگوں نے مسجد پر سنگ مرمر لگا دیا ہے۔ کیا کبھی آثار قدیمہ کے لوگوں نے یہاں کا رخ نہیں کیا کہ یہ قدیم مذہبی ورثہ ہے، اس کی حفاظت کی جائے؟ تو اس کا کہنا تھا ’’ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کسی بھی محکمے سے کوئی بھی یہاں نہیں آیا۔ مسجد کی دیواروں سے جب مٹی اور مسالہ گرنا شروع ہوا تو اس پر سنگ مرمر لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ تمام مسجد پر سنگ مرمر پندرہ بیس برس ہوئے لگایا گیا ہے۔ پہلے تمام مسجد سنگ مرمر سے مزین نہ تھی۔ بلکہ اندرونی ہال تو کسی نہ کسی شکل میں اپنی حیثیت برقرار رکھے ہوئے تھا‘‘۔ مسجد کی چھت سے واپسی پر اوپر والے ہال کے بارے میں امام مسجد عبدالقدیر نے بتایا کہ ’’مسجد کا ایک راستہ گنبد والی سائیڈ پر جو مکان ہے وہاں سے اوپر آتا تھا۔ یہ مکان ایک عورت کا تھا۔ محمود شاہ صاحب نے وہ مکان بیچ دیا۔ لیکن مسجد کے لیے راستہ اسی مکان کے ساتھ سے نکل کر اوپر آتا تھا۔ تو اس عورت نے دھوکے سے سابق امام مسجد محمود شاہ سے اسٹامپ لکھوالیا کہ یہ راستہ بھی اسی کے مکان کا حصہ ہے۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ مکان کے ساتھ مسجد کا راستہ بھی اسٹامپ پر لکھوالیا کہ یہ بھی شاہ صاحب نے اس عورت کو فروخت کر دیا ہے۔ چنانچہ اس عورت نے وہ راستہ بند کر دیا۔ اب محلے والے بھی پریشان کہ عورت ذات ہے، اسے کیا کہیں۔ دوسرے قانونی طور پر وہ مالک بھی تھی۔ چاہے دھوکے سے ہی سہی، لیکن لکھوا چکی تھی‘‘۔ اس موقع پر دائود نے کہا ’’اصل بات یہ ہے کہ مسجد کے محراب والی سمت جو گھر تھا، وہ اور مسجد کے نئے ہال والا گھر ایک ہی حویلی میں واقع تھے، جو تمام خریدی گئی تھی۔ دائیں جانب والا حصہ تو مسجد کے ہال کی توسیع میں استعمال ہوگیا۔ لیکن سامنے محراب والا حصہ محمود شاہ صاحب نے بیچ دیا۔ تاکہ مسجد کی تزئین پر رقم لگا دی جائے۔ چنانچہ اس وقت اس عورت نے (نام بوجوہ نہیں لکھا جارہا) وہ زمین بھی شاہ صاحب کو دھوکہ دے کر سستی خرید لی اور پیسے بھی کم دیئے۔ پھر اس نے یہ کام کیا کہ وہ راستہ جو ایک دروازے کی صورت میں نئی محراب سے نکالا گیا تھا، تاکہ وہاں سے بھی چھت پر بنے ہال میں آیا جاسکے، اسے بھی عورت نے بند کردیا۔ اس جانب بھی ایک وضو خانہ بنایا گیا تھا۔ تاکہ جو طالبعلم اوپر رہ رہے ہیں، وہ ادھر سے وضو کر سکیں۔ چنانچہ اس نے وہ سب توڑ پھوڑ کر جگہ پر قبضہ کرلیا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس عورت کو اس کے بیٹے نے ہی اس گھر سے نکال دیا۔ وہ عورت دربدر گلیوں میں دھکے کھانے لگی۔ اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ ایک بار ایک گلی میں غلاظت میں لتھڑی پڑی تھی کہ ایک آدمی نے اسے وہاں سے اٹھوا کر نہلوایا اور صاف ستھرا کیا۔ اس کے بعد اسی شخص نے اس عورت سے یہ مکان اپنے نام لکھوالیا۔ یوں اس کے بیٹے کو بھی وہاں سے نکلنا پڑا۔ اللہ کے گھر کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا انجام دنیا نے دیکھ لیا، کہ اس گھر میں اس عورت اور اس کے بیٹے دونوں کو رہنا نصیب نہ ہوا‘‘۔
جامع مسجد گولیاں والی کے امام مسجد کا بتانا تھا کہ ’’ہر خانہ خدا میں کچھ دیگر مخلوق بھی عبادت کے لیے موجود ہوتی ہے۔ یہاں بھی یہ مخلوق پائی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ میں نے تہجد کے لیے الارم لگایا ہوا تھا۔ الارم بجا لیکن مجھ سے سستی ہوگئی اور میں نہ اٹھ سکا۔ تو کسی نے مجھے نام لے کر اٹھایا کہ اٹھو اور نماز پڑھو۔ چنانچہ میں اٹھ گیا۔ ایسے کئی واقعات یہاں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ مخلوق کسی کو تنگ نہیں کرتی۔ اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ مجھے کئی بار ان سے واسطہ پڑا ہے۔ لیکن وہ شرارت ہرگز نہیں کرتے‘‘۔ جامع مسجد گولیاں والی اپنی ایک مضبوط حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ اس مذہبی ورثے کی بظاہر شکل و صورت تبدیل کردی گئی ہے۔ لیکن یہ جس مضبوطی سے تعمیر ہوئی، وہ آج بھی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ لوگ اس مسجد کے ناز اٹھاتے ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوںسے دیکھا کہ ایک شخص شاپر بھر کے صابن لے آیا اور وضو کی ٹوٹیوں کے ساتھ بنی صابن دانیوں میں پرانے صابن اٹھاکر نئے رکھتا گیا۔ پینٹر آج بھی اس مسجد میں کی گئی مینا کاری کا اعادہ چاہتا ہے اور کسی ایسے شخص کے انتظار میں ہے، جسے اللہ کے گھر پر خرچ کرنے کی توفیق ہو تو وہ دوبارہ دائیں بائیں چھت پر شیشے کی جگہ مینا کاری کرکے مسجد کی اصل شکل بحال کر دے۔
٭٭٭٭٭