میٹرک کے امتحانات یکم اپریل سے ہوں گے-مذاکرات کامیاب

عظمت علی رحمانی
سندھ کے وزیر تعلیم کھلے میدانوں میں امتحانات کرانے کا شوشا چھوڑ کر 3 بار امتحانات میں تاخیر کراچکے ہیں۔ گورنمنٹ سیکنڈری اسکولز ٹیچر ایسوسی ایشن (گسٹا) نے برسوں پرانے مطالبے کیلئے امتحانات کے وقت احتجاج کرکے لاکھوں طلبہ اور والدین کو پریشان کر دیا۔ تین بار ڈیٹ شیٹس شائع کرنے پر لاکھوں روپے اضافی اخراجات کرنے پڑے ہیں۔ نویں دسویں کے امتحان یکم اپریل سے ہی شروع ہوں گے۔
واضح رہے کہ وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ کے پاس وزارت سیاحت و ثقافت کا بھی قلمدان ہے۔ جس کی وجہ سے وہ تعلیم اور ثقافت کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ وزیر تعلیم ذرائع ابلاغ میں رہنے کے لئے سیاسی بیانات جاری کر دیتے ہیں۔ تاہم ان کے کسی بھی بیان پر بیوروکریسی نے عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے محکمہ تعلیم میں دہرا معیار جاری ہے۔ وزیر تعلیم کے برعکس کسی بھی ماتحت افسر نے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل نہیں کرایا۔ وزیر تعلیم نے میٹرک اور انٹر کے طلبہ کے امتحانات کھلے میدانوں میں منعقد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں اس سے انہیں دستبردار ہونا پڑا۔ سندھ بھر کے میٹرک کے طلبہ کے امتحانات پہلے 20 مارچ کو طے ہوئے۔ جس کے بعد سردار علی شاہ نے ہولی کی وجہ سے 25 مارچ کو امتحانات منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ایپکا نے احتجاج کیا تو امتحانات پھر ملتوی کرکے یکم اپریل کو منعقد کرنے کیلئے نئی ڈیٹ شیٹس چھپوائی جارہی ہیں۔
میٹرک بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر سعیدالدین کے مطابق میٹرک کے امتحانات کے لئے کل 367 امتحانی مراکز بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے طلبہ کے لئے 199 اور طالبات کے لئے 168 مراکز ہیں۔ امسال نویں سائنس اور جنرل کے ایک لاکھ 80 ہزار 400 سے زائد طلبا و طالبات، جبکہ دسویں سائنس و آرٹس کے ایک لاکھ 84 ہزار 956 سے زائد طلبا و طالبات امتحان میں حصہ لیں گے۔ مجموعی طو ر پر 3 لاکھ 65 ہزار 356 طلبہ امتحان دیں گے۔ ادھر امتحانات سے 3 روز قبل ایک بار پھر گورنمنٹ سیکنڈری اسکولوں کے اساتذہ کی ایسوسی ایشن (گسٹا) نے سندھ بھر کے اسکولوں سے نکل کر کراچی میں آکر احتجاج شروع کیا، جس کی وجہ سے ایک بار پھر اسکولوں کے منتطمین، والدین اور لاکھوں طلبہ پریشان ہیں کہ ایک بار پھر امتحانات ملتوی ہوں گے یا نہیں۔ تاہم اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے میٹرک بورڈ کراچی کے چیئرمین ڈاکٹر سعیدالدین خان نے پرائیویٹ اسکولوں کی ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا۔ جس میں سرکاری اسکولوں میں امتحانی مراکز ختم کرکے پرائیویٹ اسکولوں میں مراکز بنانے پر مشورہ کیا گیا۔ تاہم اس دوران اساتذہ اور حکومت کے مابین مذاکرات کامیاب ہو گئے۔ جس کی وجہ سے اساتذہ امتحانات میں ڈیوٹی کریں گے۔
معلوم رہے کہ سندھ بھر کے اساتذہ نے سال2012ء کے مختلف کیڈر میں بھرتی اساتذہ کو تنخواہیں جاری کرنے سمیت اساتذہ کی ترقیوں اور 7 مطالبات کی منظوری کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کیلئے کراچی پریس کلب پر احتجاج بھی کیا گیا۔ جس میں پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج ہوا۔ تاہم گزشتہ روز سندھ حکومت اور استاتذہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور وزیر تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ میٹرک کے امتحانات شیڈول کے مطابق ہوں گے۔ گورنمنٹ سیکنڈری ٹیچرز ایسوسی ایشن اور صوبائی حکومت کے مابین مذاکرات 3 گھنٹے جاری رہے۔ جس میں اساتذہ کا ٹائم اسکیل کا مطالبہ منظور کرلیا گیا ہے اور دیگر مطالبات پر کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ کمیٹی میں اساتذہ کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔ ٹائم اسکیل 20 گریڈکا تین سال سے زیر التوا تھا۔ 22 مارچ کو سمری آگے بڑھا دی گئی تھی۔ تاہم اب سمری منظور ہوگئی ہے اور اس کا باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اساتذہ کے واجبات 10 دن کے اندر ادا کر دیئے جائیں گے۔ جبکہ ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ اور 2012ء میں بھرتی ہونے والے اساتذہ کی اسکروٹنی کی جائے گی۔
ادھر پرائیویٹ اسکولز نے اساتذہ کی جانب سے میٹرک امتحانات کے بائیکاٹ کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صدر پیک سید شہزاد اختر نے کہا کہ کراچی میں پُرامن احتجاج کرنے والے اساتذہ پر پولیس کا تشدد قابل مذمت ہے۔ لیکن اساتذہ کو اسکولز اور امتحانات کے بائیکاٹ سے گریز کرنا چاہئے۔ کیونکہ شہر کے ساڑھے تین لاکھ بچوں کا مستقبل داؤ پر لگنے کا خدشہ ہے۔ سید شہزاد اختر نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ احتجاج کرنے والے اساتذہ کا معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ سید شہزاد اختر نے وزیر اعلیٰ سندھ اور کے الیکٹرک سے مطالبہ کیا ہے کہ میٹرک امتحانات کے اوقات میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے۔ اس موقع پر ممبر میٹرک بورڈ غلام عباس بلوچ نے کہا کہ نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات کے دوران طلبا اور طالبات کو پانی اور باتھ روم سمیت تمام سہولیات مہیا کی جائیں۔
پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن (پسما) کے چیئرمین شرف الزماں نے حکومت سندھ، سیکریٹری تعلیم اور تعلیمی بورڈ کے چیئرمین سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میٹرک کے امتحانات کی تاریخ مزید آگے بڑھانے کے بجائے یکم اپریل کو ہی امتحانات لئے جائیں اور اس سلسلے میں جن سرکاری تعلیمی اداروں میں امتحانی مراکز قائم کئے گئے تھے، ان کے قریب ہی پرائیویٹ اسکولوں میں امتحانی مراکز کو ٹرانسفر کردیا جائے۔ تاکہ طلبہ جو بار بار کی امتحانی تاریخیں تبدیل کرنے سے ذہنی ٹینشن میں مبتلا ہوگئے ہیں، وہ مزید پریشانی سے بچ سکیں۔ کیونکہ اس طرح ان کی پرسنٹیج پر بھی برا اثر پڑے گا۔ چیئرمین پسما نے کہا کہ گزشتہ 20 مارچ کو امتحانات کے اعلان پر جن پرائیویٹ اسکولوں میں امتحانی مراکز بنائے گئے تھے، انہوں نے 18 مارچ سے ہی اپنے اسکولوں میں طلبہ کی چھٹی کردی تھی۔ جس سے طلبہ کا درس و تدریس کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا تو آٹھویں جماعت تک کے بچوں کیلئے مارچ اور اپریل کے مہینے کے علاوہ مئی و جون کی چھٹیاں ہونے کی وجہ سے چار ماہ کا شدید تعلیمی نقصان ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نویں اور دسویں جماعت کیلئے اپنے تمام پرائیویٹ اسکول امتحانی مراکز بنانے کیلئے تعلیمی بورڈ کو دینے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میٹرک سائنس کے امتحانات صبح کے بجائے دوپہر میں لئے جائیں۔ تاکہ آٹھویں جماعت تک کے طلبہ کا بھی تعلیمی نقصان نہ ہو اور وہ اپنے درس و تدریس کو جاری رکھ سکیں۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ وزیر تعلیم کے بلند و بانگ دعووں اور غیر سنجیدہ اقدامات کو دیکھ کر اساتذہ نے اپنے مطالبات منوانے کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کیا، جب میٹرک کے لاکھوں طلبہ ہونے جا رہے ہیں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ کوئی بھی اپنے مطالبات منوانے کے لئے 3 سو سے 4 سو اساتذہ کو جمع کرکے امتحانات جیسے کسی بھی بڑے ایونٹ کو سبوتاژ کرنے کی دھمکی دے کر مطالبات منوا لے گا۔ تاہم اس سے خود تعلیم اور تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتے رہیں گے۔ ادھر میٹرک بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر سعیدالدین خان کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے تہیہ کرلیا تھا کہ اگر سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ہڑتال پر جاتے بھی ہیں تو ہم امتحانات ہر صورت منعقد کریں گے۔ مگر وزیر تعلیم اور ان کے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment