افغان طالبان اور سیاستدانوں کے درمیان مذاکرات کی تیاری شروع

نمائندہ امت
افغان طالبان اور سیاستدانوں کے درمیان بین الافغانی مذاکرات کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر حامد کرزئی کی قیادت میں افغان سیاستدانوں کا 80 رکنی وفد قطر جائے گا۔ مذاکرات میں شرکت کرنے والے سیاستدانوں کے نام فائنل کرکے ان سے پاسپورٹس طلب کرلئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قطر حکومت نے افغان سیاستدانوں کو دوحہ پہنچانے کیلئے طیارہ بجھوانے کی پیشکش کی ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حامد کرزئی نے عمران خان کے بیان پر اس لئے ردعمل کا اظہار کیا تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم نے افغان طالبان اور افغان سیاستدانوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کو قبل از وقت افشاں کردیا تھا۔ اس بات چیت میں یہ طے ہوا تھا کہ مستقبل میں پاکستان، افغان عبوری حکومت کی مدد کرے گا۔ لیکن عمران خان نے عبوری حکومت بننے سے قبل ہی اس کا اعلان کردیا، جس کی وجہ سے مذاکرات کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے سے قبل عمران خان نے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کی بات کرکے نہ صرف طالبان کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ بلکہ وہ عناصر بھی مشتعل ہو گئے ہیں۔ جنہیں اس مجوزہ عبوری حکومت کے بارے میں امریکہ نے اعتماد میں لیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے عمران خان کے بیان پر اس لئے ہنگامہ کھڑا کیا ہے کہ مستقبل کی عبوری حکومت میں ان دونوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ افغانستان میں موجود ایک معتبر ذریعے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام پر روس میں افغان طالبان اور حامد کرزئی کی قیادت میں چالیس رکنی وفد کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔ افغانستان واپسی پر کرزئی نے اس حوالے سے کئی افغان دھڑوں کو اعتماد میں لیا تھا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کے قیام پر پیش رفت جاری تھی اور زلمے خلیل زاد نے اس حوالے سے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو بھی اعتماد میں لیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا عبوری حکومت میں کوئی کردار نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اشرف غنی ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان سمیت بہت سے اہم پاکستانی حکام آگاہ ہیں کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے بعد افغانستان میں کس قسم کی حکومت بنے گی اور اس حکومت میں کون کون سے دھڑے شامل ہوں گے، تاکہ افغانستان کو خانہ جنگی سے بچایا جاسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ عبوری حکومت میں طالبان، حزب اسلامی، جمعیت اسلامی، استاد سیاف، حامد کرزئی، حنیف اتمر اور استاد محقق سمیت دیگر افغان دھڑے شامل ہوں گے۔ عبوری حکومت کی مدت امریکی انخلا تک اٹھارہ مہینے سے دو سال تک ہوگی۔ تاہم اگر اس دوران عبوری حکومت قیام امن اور تعمیر نو میں پیش رفت کرتی ہے تو اسے تقریباً دو سے تین سال تک توسیع دی جائے گی۔ لیکن پاکستانی وزیراعظم نے قبل از وقت بات کر کے امریکی حکومت، افغان طالبان اور ان افغان دھڑوں کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے، جن کا عبوری حکومت میں اہم کردار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امریکی سفیر جان بس نے ایک کانفرنس کے دوران پاکستانی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سفارت کاری اور کرکٹ میں بہت فرق ہے۔ سفارت کاری میں آپ کسی بات کو آخری وقت تک خفیہ رکھتے ہیں۔ جبکہ کرکٹ میں مخالف کو دبائو میں لانے کیلئے اپنے تمام گر سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسری جانب زلمے خلیل زاد نے بھی عمران خان کی بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ مجوزہ حکومت میں اس بات پر بھی غور کیا جا رہا تھا کہ اگر طالبان اور افغان سیاسی دھڑے کسی سربراہ کی قیادت پر متفق نہ ہو سکے تو زلمے خلیل زاد، طالبان اور دیگر دھڑے مشترکہ طور پر اس حکومت کو چلائیں گے۔ موجودہ صورتحال میں ان لوگوں کو پروپیگنڈے کا موقع مل گیا ہے، جو اس عبوری حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اشرف غنی نے افغان سفیر کو پاکستان سے واپس بلا لیا ہے۔ صدر اشرف غنی، ڈاکٹر عبد اللہ، جنرل دوستم اور بھارتی لابی عمران خان کے اس بیان پر پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ طالبان ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایسی خبریں غلط ہیں کہ طالبان عبوری حکومت کے قیام کیلئے مہم چلا رہے ہیں۔ تاہم عبوری حکومت کے حوالے سے بات چیت ضرور ہوئی ہے۔ ذرائع کے بقول افغانستان سے امریکی انخلا کی نگرانی کیلئے ایک نگران حکومت کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ نگران حکومت موجودہ افغان حکومت تو نہیں ہو سکتی۔ طالبان ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ امریکہ کے ساتھ قطر میں حتمی مذاکرات کیلئے ایک بار پھر تیاریاں کی جارہی ہیں۔ جبکہ زلمے خلیل زاد نے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کو امن پسند اور وطن دوست شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بہت سے معاملات پر لچک دکھانے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن اس موقع پر بعض عناصر ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق زلمے خلیل زاد کا اشارہ افغان سلامتی کے مشیر کی طرف تھا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment