صوفیا عراق کے قتل کا حکم جاری ہوا

جب خلیفہ معتضد کا زمانہ آیا تو علمائے بغداد نے اجتماعی طور پر صوفیاء کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ ایک روایت کے مطابق اس ہنگامہ آرائی کا سبب ایک شخص غلام خلیل تھا۔ خلیل نے دربار خلافت میں عرضداشت پیش کرتے ہوئے کہا ’’عراق کے تمام صوفیاء زندیق او بے دین ہیں، اس لئے امیر المؤمنین کا فرض ہے کہ وہ اسلام کو اس خوفناک فتنے سے بچائیں۔‘‘
غلام خلیل کی درخواست سن کر خلیفہ معتضد نے تمام صوفیائے عراق کے قتل کا حکم جاری کردیا۔
دوسری روایت میں ہے کہ اس ہنگامہ آرائی کی ابتداء شیخ نوریؒ سے ہوئی، جو نہایت بلند مرتبہ صوفی تھے۔ شیخ نوریؒ ایک دن بغداد کے کسی راستے سے گزر رہے تھے کہ آپؒ نے چند لوگوں کو دیکھا جو شراب کے مٹکے اٹھائے ہوئے تھے۔ شیخ نوریؒ کی مذہبی غیرت اس منظر کو برداشت نہ کرسکی۔ آپؒ وارفتگی کی حالت میں آگے بڑھے اور شراب کے بہت سے مٹکے توڑ ڈالے، خم بردار تعداد میں زیادہ تھے۔ اس لئے ان لوگوں نے حضرت شیخ نوریؒ کو پکڑ لیا اور عباسی خلیفہ کے دربار میں لے گئے۔ بعض مؤرخین نے معتضد کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ وہ ایک تند مزاج حکمران تھا۔ پہلے گالی دیتا تھا، بعد میں گفتگو کا آغاز کرتا تھا۔ خلیفہ نے حسب عادت شیخ نوریؒ کو گالی دیتے ہوئے کہا:
’’ تو شراب کے خم توڑنے والا کون ہوتا ہے اور تجھے محتسب کس نے بنایا ہے؟‘‘
حضرت شیخ نوریؒ نے کسی تکلف اور رعایت کے بغیر فرمایا ’’جس ذات پاک نے تجھے خلیفہ بنایا ہے، اسی نے مجھے محتسب کے منصب پر فائز کیا ہے۔‘‘
خلیفہ معتضد حضرت شیخ نوریؒ کا یہ بے باکانہ جواب برداشت نہ کر سکا اور تمام صوفیائے عراق کے قتل کا حکم جاری کر دیا گیا۔ معتوب صوفیاء میں حضرت شیخ نوریؒ کے احباب بھی شامل تھے۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ عباسی خلیفہ معتضد ایک بندہ شریعت اور محتاط حکمران تھا۔ وہ حضرت شیخ نوریؒ کے اس عمل سے اس قدر برہم نہیں ہو سکتا تھا۔ اب تاریخی حقائق کی روشنی میں ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ عراق کے فقہاء اور محدثین صوفیاء کے علم باطنی کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کے نزدیک ذکر اور سماع کی محفلوں کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اس لئے وہ صوفیاء کے عشق جاں سوزی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اتفاق سے بعض صوفیاء بھی غیر محتاط زندگی بسر کرتے تھے۔ نتیجتاً ان پر سر عام جذب و مستی کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، پھر یہی جذب و مستی صوفیاء کی دشمنی بن گئی اور اسی کو بنیاد بنا کر فقہائے عراق نے عباسی خلیفہ کے دربار میں صوفیاء کی بے راہ روی کی شکایت کی اور اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اگر اس گروہ کو شرع کا پابند نہ بنایا گیا تو عام مسلمان گمراہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کسی تاریخی روایت سے پتہ نہیں چلتا کہ اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے تحقیق سے کام لیا یا صرف فقہائے عراق کی شکایت پر تمام صوفیاء کے قتل کا حکم جاری کر دیا۔ فقہاء کی طرف سے صوفیاء پر تین الزامات عائد کئے گئے تھے۔ زندقہ، الحاد اور حلول۔ یہ تینوں صورتیں کفر کی کھلی ہوئی علامات ہیں۔ اسی بنیاد پر صوفیاء کو دائرئہ اسلام سے خارج کیا گیا اور وہ واجب القتل قرار پائے۔
صرف حضرت جنید بغدادیؒ کی حد تک پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے میں کسی قدر تحقیق سے کام لیا گیا تھا۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ ناخوشگوار واقعہ معتضد کے بجائے خلیفہ الموفق کے دور اقتدار میں پیش آیا تھا۔ مؤرخین کی اسی جماعت کے مطابق حضرت جنید بغدادیؒ کو الموفق کے دربار میں طلب کر کے پوچھا گیا تھا۔
’’جنید! تمہارا مسلک کیا ہے؟ ‘‘
جواب میں آپؒ نے فرمایا تھا: ’’میں محدث و فقیہہ ہوں اور شیخ ابو ثورؒ کا شاگرد ہوں اور ان ہی کی فقہ کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں، میرا مسلک قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔‘‘
اس باز پرس کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ کو چھوڑ دیا گیا، مگر دوسرے صوفیاء حکومت کی نظر میں مجرم قرار پائے۔ پھر جب ان برگزیدہ ہستیوں کے قتل کے احکام جاری ہوئے تو حضرت جنید بغدادیؒ نے نہایت آزردہ لہجے میں فرمایا:
’’میں اسی دن کیلئے منع کرتا تھا کہ صبر و ضبط سے کام لو اور لوگوں سے وہ باتیں نہ کرو، جو ان کے فہم و ادراک سے بالاتر ہوں۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment