حامد کرزئی کی قیادت میں 199 رکنی وفد قطر جائے گا

محمد قاسم
افغان طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور امریکا کے ساتھ ممکنہ معاہدے کی باتیں سامنے آنے کے بعد طالبان کے دشمن بھی طالبان کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہو گئے۔ پہلی بار جنرل دوستم کی نمائندگی ان کا بیٹا باتور دوستم کرے گا۔ جبکہ بین الافغان مذاکرات میں حکومتی نمائندے بھی بحیثیت افغان شہری شرکت کریں گے۔ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ بعض امور پر سمجھوتے کا امکان ہے اور اس کے بعد بین الافغان مذاکرات کئے جائیں گے۔ جس میں وسیع البنیاد یا عبوری حکومت پر بات چیت کی جائے گی۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق قطر میں منعقد ہونے والے گرینڈ جرگے میں افغان طالبان کی قیادت مولوی عباس استنکزئی اور سیاسی رہنمائوں کے وفد کی قیادت حامد کرزئی کریں گے۔ 199 افراد پر مشتمل وفد میں سیاستدانوں اور سابق جہادیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے ارکان اور صحافی بھی شامل ہیں۔ ان اہم ناموں میں ماسکو میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے سابق افغان صدر حامد کرزئی، جنرل اسماعیل خان، عطا محمد نور، یونس قانونی، حنیف اتمر، لطیف پدرام، عبدالسلام، استاد زمان، متوکل، خلیل کرزئی، استاد محقق، جبکہ اس بار جنبش ملی کی نمائندگی جنرل دوستم کا بیٹا باتور دوستم کر رہا ہے۔ حامد گیلانی، استاد سیاف کے نمائندہ حبیب الرحمان سیاف، محمد ناتکی، کریم خلیلی گروپ کے آصف محسنی شامل ہیں۔ دیگر سیاستدانوں میں فاروق اعظم، حاجی فرید، جمعہ خان ہمدرد، محمد آصف، غلام فاروق وردگ، ڈاکٹر نورالحبیب نثار، طالبان کے سابق مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سید محمد طیب آغا، مولوی عبدالحمید، صحافیوں کی جانب سے امام الدین صافی، شفیع اعظم، ذاکر جلالی، فیض ذلان، عثمان برہان، حفیظ الدین، ذاکر جلالی، خیراللہ شنواری۔ خواتین میں سائرہ شریف، حمیرا، اریون، فاطمہ گیلانی، صوفیہ عمر، ساجدہ افغان اور دیگر شامل ہیں۔ افغان طالبان کے وفد میں مولوی عباس استنکزئی، مولوی عبد السلام، عبدالاحد جہانگیروال، مطیع الحق خالص، عبدالمنان عمری، خیراللہ خیر خواہ، مولوی فاضل، ضیاء الرحمان مدنی، شہاب الدین دلاور، سید رسول حلیم، امیر خان متوقی سمیت تقریباً بیس دیگر اراکین شامل ہیں۔ افغان طالبان اور افغان سیاستدانوں کے درمیان ان مذاکرات میں حکومتی رہنما بھی شامل ہیں۔ تاہم وہ بحیثیت افغان شرکت کر رہے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہونے جا رہا ہے کہ وہ لوگ جو افغان طالبان کا وجود ماننے کو بھی تیار نہیں تھے، وہ بھی طالبان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ رہے ہیں۔ طالبان ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تمام افغان برابر ہیں اور طالبان سب کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ کون ماضی میں کیا تھا۔ افغانستان کی تعمیر نو میں ہر کسی کو حصہ لینا چاہئے۔ ذرائع کے مطابق طالبان افغان حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، اسی لئے اس کے ساتھ مذاکرات بھی نہیں کرنا چاہتے۔ البتہ بحیثیت افغان ان کی قدر کرتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان اور سیاستدانوں کے درمیان ماسکو میں وسیع البنیاد یا عبوری حکومت کے حوالے سے بات چیت ہوئی تھی۔ لیکن کابل حکومت اس تمام معاملے کو سبوتاژ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ افغان صدر کو معلوم ہے کہ وہ افغانوں کے ساتھ مل کر ہی تعمیر نو میں حصہ لے سکتے ہیں۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے جس طرح حکومت کی ہے، اب مستقبل میں ایسی گورنمنٹ کا کوئی امکان نہیں۔ اشرف غنی آئندہ کے لئے بھی صدر بن کر قوم کی قسمت سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب شاید ایسا ممکن نہ ہو۔ کیونکہ تمام افغانوں کو ملک کی تعمیر نو میں مل کر حصہ لینا پڑے گا۔ ذرائع کے بقول قطر حکومت نے تقریباً دو سو افراد پر مشتمل گرینڈ جرگے کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور افغان سیاستدانوں، صحافیوں اور سابق جہادیوں کو ویزے جاری کر دیئے گئے ہیں۔ افغان طالبان کے کئی رہنما بھی قطر پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملا عبدالغنی برادر بھی گرینڈ جرگے سے خطاب کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ ایران نے اپنے حامی گروپوں کو طالبان کی حمایت کرنے کا کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف محسنی سمیت استاد محقق اور دیگر افراد اس گرینڈ جرگے میں شرکت کر رہے ہیں۔ حزب اسلامی کا وفد بھی جرگے میں شامل ہو گا۔ ادھر افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں امریکا کی نمائندگی کرنے والے زلمے خلیل زاد کابل پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے افغان صدر کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ ’’امت‘‘ کے کابل میں موجود ذرائع کے مطابق زلمے خلیل زاد نے افغان صدر کو کہا ہے کہ وہ اپنے بعض وزرا اور افراد کو بیان بازی سے روکیں کہ اس کا براہ راست نقصان افغان صدر کو ہی ہو گا۔ ذرائع کے مطابق امریکا اور افغان طالبان کے مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے اور اس پیش رفت کو جاری رکھنے کیلئے آئندہ مذاکرات سے قبل دس ممالک سے رابطے کئے جارہے ہیں، جس میں برطانیہ، پاکستان، ترکی، چین، افغانستان، روس اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ تاہم افغان صدر نے انہیں بتایا کہ افغان طالبان ان سے مذاکرات نہ کرکے افغان حکومت کو غیر قانونی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور امریکا بھی طالبان کے اس موقف کی حمایت کر رہا ہے۔ افغان حکومت کو اکیلا چھوڑنے سے افغانستان کے اندر مشکلات بڑھ رہی ہیں اور افغان فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کے مورال پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment