عمران خان سے قربت سے شہباز گل کو پنچاب کا کرتا دھرتا بنادیا

نجم الحسن عارف
پنجاب حکومت کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل صوبے میں عثمان بزدار کی ترجمانی کرنے کے علاوہ اب ان کی ہدایت پر مختلف محکموں کا معائنہ بھی کر سکیں گے۔ نئی ذمہ داری کا اصولی فیصلہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کی اٹھارہ مارچ کو ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔ شہباز گل وزیر اعلیٰ کی ٹیم کے وہ پہلے رکن بلکہ غیر منتخب ٹیم ممبر ہیں، جن کی کارکردگی کو بہت تھوڑے عرصے میں اس انداز سے صوبائی اور مرکزی سطح پر پذیرائی ملی۔ جبکہ اس سے قبل صوبائی کابینہ کے کم از کم دو ارکان الگ الگ وجوہ سے فارغ کئے جا چکے ہیں۔ صوبائی وزرا کی کارکردگی کا وزیر اعظم عمران خان براہ راست ایک سے زائد بار جائزہ بھی لے چکے ہیں۔ لیکن اب تک کسی وزیر یا دوسرے عہدے دار کی ایسی پذیرائی کی ایسی مثال سامنے نہیں آسکی تھی۔ ان کے اس کردار کے نتیجے میں وزیر اعظم کو اپنے اعتماد کے غیر سیاسی ساتھی سے حکومتی اور سرکاری معاملات کی ایک اور زاویے سے تصویر بھی دیکھنے کا موقع مل سکے گا، کہ وہ انسپکشن کی رپورٹس براہ راست وزیر اعظم کو بھیجا کریں گے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر شہباز گل کی ذمہ داری میں اضافے کا نوٹیفیکشن وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکریٹری کی طرف سے جاری کیا گیا۔ قبل ازیں اسلام آباد میں عمران خان اور عثمان بزدار کی ملاقات میں وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ سمیت ارکان اسمبلی کی تنخواہوں یا مراعات میں اضافے پر سخت ناراضگی ظاہر کی تھی۔ نیز صوبے میں عوامی مسائل اور گورننس کے مسائل پر بھی تشویش کا اظہارکیا تھا، کہ حکومت محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ اس ملاقات میں وزیر اعلی کی طرف سے بیوروکریسی کے رویے کا شکوہ کیا گیا۔ جس کے بعد ڈاکٹر شہباز گل کا صوبے میں کردار بڑھانے کا وزیر اعظم نے حکم دیا، تاکہ حکومتی کارکردگی میں تیزی آئے۔ تاہم ذرائع کے مطابق یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کی طرح شہباز گل بھی پی ٹی آئی میں نئی ’’انٹری‘‘ ہیں۔ انہیں پارٹی کے اکثر لوگ ترجمان وزیر اعلی کا پورٹ فولیو ملنے سے پہلے جانتے تک نہیں تھے۔ ڈاکٹر شہباز گل کو نئے اختیار دیئے جانے کے بعد حکومت کو امید ہے کہ وہ محکمانہ مانیٹرنگ اور معائنوں کے ذریعے بالواسطہ انداز سے بیورو کریسی کوقابو کر سکیں گے۔
دوسری جانب صوبے میں تعینات اعلیٰ ترین انتظامی افسران بھی پچھلے آٹھ ماہ سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ بیوروکریٹس کی اس عدم خوشی کا اظہار ان کی روزمرہ کی ورکنگ سے بھی ہو رہا ہے۔ دوروز قبل چیف سیکریٹری پنجاب نسیم کھوکھر کی طرف سے سابقہ اور موجودہ بیوروکریٹس کی ایک ’’گیٹ ٹو گیدر‘‘ کو بھی بالعموم اسی پس منظر میں دیکھا گیا۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے بھی بیورو کریسی کے عدم تعاون اور عدم کارکردگی پر اب کھلے عام بات کرنا شروع کر دی ہے۔ چیف سیکریٹری پنجاب نسیم کھوکھر کی دعوت میں بطور خاص شریک ہونے والے سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس دعوت کو معمول کی ملاقات تو قرار دیا، لیکن انہوں نے اعتراف بھی کیا ہے کہ اعلیٰ افسران کافی پریشان ہیں کہ انہیں حکومت، عدلیہ، نیب اور میڈیا کی طرف سے طعن و تشنیع کا نشانہ تو بنایا جاتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسا کچھ کرنے کو تیار نہیں جس سے افسران کو تحفظ کا احساس ملے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلا شبہ ماضی میں حکمرانوں نے افسروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی حد تک ذاتی تعلق داری قائم کر رکھی تھی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ افسروں کو سہارا بھی ہوتا تھا کہ وہ جس کے کہنے پر کوئی کام کر رہے ہیں، وہ ان کے ساتھ کھڑا بھی ہے۔ اب تو ایسا کچھ بھی نہیں۔ بس سب لوگ یہ چاہتے ہیں کہ افسر اپنے دسخط کردیں اور اس کے بعد اگر کچھ ہو تو خود ہی بھگتتے رہیں۔ یہ چیز افسروں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ سابقہ سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی نے مزید کہا کہ بیوروکریٹس کی حکومتوں سے شکایت پرانی ہے۔ لیکن نئی حکومت کے آنے کے بعد ان مسائل اور پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور جیسا کہ توقعات تھیں کہ کمی ہوگی، یہ نہیں ہو سکا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نیا وزیر اعلی تو تب افسروں کے لیے زیادہ موزوں ہوتا کہ وہ اپنے فیصلے خود کرتا۔ فیصلے تو دوسرے لوگ کر رہے ہیں۔ پنجاب سے متعلق فیصلے کرنے والوں میں ایک وفاقی حکومت ہے۔ باقی کھلاڑی وفاقی حکومت کے علاوہ ہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پریشانی کے ماحول میں افسروں کا چھٹی لے کر چلے جانا غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ پرانے وقتوں سے ہو رہا ہے۔ اب بھی اگر کوئی چاہے تو چھٹی کا لینا اس کا اپنا فیصلہ ہو گا۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شہباز گل کا پارٹی میں ماضی میں کوئی نام یا کام تو نہیں تھا، البتہ یہ ضرورسنا گیا ہے کہ وہ عمران خان کے بہت قریب مانے جاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر انہیں غیر منتخب ہونے کے باوجود وزیر اعلی کا ترجمان بنایا گیا اور اب ان کی ذمہ داری کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق حکومت میں آنے کے بعد پی ٹی آئی قیادت نے نوّے فیصد ان لوگوں کو سرکاری عہدوں پر لیا ہے جو پارٹی سے باہر کے لوگ ہیں۔ عمران خان حکومت بناتے وقت سمجھتے تھے کی صوبہ پنجاب میں کوئی مضبوط فرد وزیر اعلی بنا دیا تو ان کی اپنی شخصیت اور حیثیت متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لیے وہ عثمان بزدار کو سامنے لے آئے، تاکہ پنجاب پر وزیر اعظم کی گرفت زیادہ رہے۔ لیکن اب اس بنیادی فیصلے کا خمیازہ ہے کہ ختم نہیں ہو رہا۔ اسی وجہ سے پنجاب حکومت اپنے آپ کو منوانے میں ناکام ہے۔ ’’امت‘‘ نے ڈاکٹر شہباز گل سے اس سلسلے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، جیسا میڈیا میں آرہا ہے۔ وہ صرف وہاں جائیں گے جہاں انہیں وزیر اعلی بھیجیں گے۔ وزیر اعلی کی طرف سے مانیٹرنگ اور انسپیکشن کا کام مختلف لوگ اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہیں۔ تاہم انہوں نے اس امر کی تصدیق نہیں کی کہ وہ صرف پولیس تھانوں اور اسپتالوں کے معائنے تک محدود ہوں گے۔ یا پنجاب میں جس محکمے میں ضرورت ہوئی اور وزیر اعلی نے حکم دیا وہاں جائیں گے۔ خیال رہے کہ محکمہ اطلاعات پنجاب کے ایک ذریعے کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا تھا کہ ان کے ذمہ کیا صرف اسپتالوں اور پولیس تھانوں کی انسپیکشن لگائی گئی ہے۔ جس کی انہوں نے تردید کر دی۔ تاہم ان کے معائنوں اور مانیٹرنگ کے بعد امکان ہے کہ صوبائی محکمے، ادارے اور عوامی خدمت سے متعلق شعبوں کی کارکردگی میں بہتری ہو گی۔ یاد رہے کہ ماضی میں وزیر اعلی شہباز شریف خود وقتاً فوقتاً مختلف انسٹی ٹیوشنز کا اچانک دورہ کر کے معاملات کو چیک کرتے رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment