اقبال اعوان
کراچی کے ماہی گیروں کو لوٹنے والے گروہ سرگرم ہوگئے ہیں۔ ابرہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ کے مچھیروں کو شکار سے واپسی پر اسپیڈ بوٹس پر سوار بحری ڈکیت گھیر لیتے ہیں۔ غریب ماہی گیروں کو اسلحے کے زور پر مچھلی، جال، نقدی اور موبائل فونز سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکوئوں کو بعض ساحلی وڈیروں اور مقامی پولیس کے کرپٹ اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ حالیہ چند روز میں واقعات بڑھنے پر ماہی گیروں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ماہ اوسطاً چار سے پانچ واقعات رونما ہورہے ہیں۔ ماہی گیروں کی جانب سے ڈاکس پولیس کو وارداتوں کی اطلاع دی جاتی ہے، تاہم مذکورہ تھانے والے وسائل نہ ہونے کا عذر پیش کر دیتے ہیں۔ ماہی گیروں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بعض مقامی جرائم پیشہ گروہ ان وارداتوں کے ذریعے علاقے میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ ممنوعہ جالوں اور غیر قانونی جیٹیوں کے خلاف آپریشن شروع نہ ہوسکے۔ ساحلی علاقوں میں ماہی گیروں نے اس حوالے سے احتجاج شروع کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ تک کے علاقے جرائم پیشہ افراد، منشیات فروشوں اور لینڈ گریبرز کا گڑھ بن چکے ہیں۔ تاہم مقامی پولیس بھتہ وصول کر کے خاموشی تماشائی بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب بعض ساحلی وڈیروں کے کارندے بھی من مانی کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سندھ فشریز کا محکمہ بار بار اعلانات کرتا ہے کہ ممنوعہ جالوں اور غیر قانونی جیٹیوں کے خلاف جلد آپریشن شروع کیا جائے گا۔ تاہم ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ کے با اثر سیاسی وڈیرے صوبائی حکومت پر دبائو ڈال کر معاملہ رکوا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وفاقی حکومت اور بحری سیکورٹی اداروں نے اس معاملہ کو ہینڈل کرنا شروع کردیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ تک کے ساحلی علاقے متحدہ لندن سمیت دیگر تنظیموں کے مفرور دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں گٹکے اور کچی شراب کے کارخانے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ منشیات کے ڈمپنگ اسٹیشن بھی بنے ہوئے ہیں جہاں پر ساحلی روٹ اور زمینی راستوں سے منشیات کوئٹہ اور پشاور سے لاکر جمع کی جاتی ہے اور پھر شہر بھر میں سپلائی کی جاتی ہے۔ ایرانی تیل کے ڈمپنگ اسٹیشن بھی یہاں موجود ہیں۔ جبکہ قبضہ مافیا ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ، چشمہ گوٹھ اور اطراف کی ساحلی آبادیوں میں دو درجن سے زائد غیر قانونی جیٹیاں بنا چکی ہے، اس کے علاوہ زمینوں پر قبضے بھی جاری ہے۔ مرغی کے پروں اور مچھلی کی آنتوں سے تیل نکالنے والی فیکٹریاں بھی بنائی جارہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ سے لگ بھگ 4 ہزار چھوٹی، بڑی کشتیاں شکار پر جاتی ہیں۔ دوسری جانب ڈینگی بھنڈار سمیت دیگر جزیروں، کورنگی اور پھٹی کریکس سے شکار کر کے واپس آنے والوں کو لوٹنے کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے۔ متاثرہ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ جزیروں اور کریکس کے قریب ان کی لانچوں کی اسپیڈ کم ہوتی ہے، جنہیں اسپیڈ بوٹس پر آنے والے ڈکیت گھیر لیتے ہیں۔ ایک متاثرہ ماہی گیر ابوذر بنگالی نے بتایا کہ وہ لوگ کہ رات دو بجے شکار سے واپس آرہے تھے۔ لانچ پر 11 افراد تھے۔ جو 15 دن کے شکار کے باعث تھکاوٹ سے بے سدھ پڑے تھے کہ جزیروں کو کراس کرتے ہوئے جونہی کریکس (کھائیوں) کوعبور کرنے لگے، اس دوران دو اسپیڈ بوٹس پر ایک درجن سے زائد مسلح افراد نے ان کی لانچ کو گھیر لیا۔ ڈاکوئوں نے ڈھاٹے باندھے ہوئے تھے۔ مسلح افراد نے ماہی گیروں کو مارا پیٹا اور شکار شدہ مچھلی، جھینگا، جال، نقد رقم اور موبائل فون چھین کر دھمکیاں دیتے ہوئے فرار ہوگئے۔ ماہی گیر یوسف لالہ کا کہنا تھا کہ دو تین سال قبل بھی اس طرح کی وارداتیں شروع ہوئی تھیں۔ بعد ازاں ساحلی وڈیروں نے اپنے مسلح افراد کو نگرانی پر لگایا تو وارداتیں ختم ہوگئی تھیں۔ لیکن اب دوبارہ یہ وارداتیں شروع ہوچکی ہیں۔ ماہی گیر محمد بخش، شاہ عالم اور محبوب کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے کے دوران کئی لانچوں کو لوٹا گیا ہے۔ ماہی گیروں کی فلاحی تنظیم کے ذمہ دار کمال شاہ کا کہنا تھا کہ لوٹ مار کے واقعات کے بعد آئی جی سندھ، فشریز اور دیگر اداروں کو درخواستیں ارسال کی ہیں کہ غریب ماہی گیروں کی دادرسی کی جائے۔ ماہی گیروں کی تنظیم پاک سمندر فشرمین فورم کے چیئرمین ایم فرید ہمدرد کا کہنا تھا کہ بحری قذاق، ماہی گیروں پر تشدد بھی کرتے ہیں اور لوٹ مار کر کے فرار ہوجاتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے ابراہیم حیدری تھانے سے رابطہ کیا گیا تو ڈیوٹی افسر مجاہد کا کہنا تھا کہ متاثرین کو ڈاکس تھانے میں بھجوایا جاتا ہے۔ کیونکہ سمندری حدود سرکریکس تک کے معاملات ڈاکس تھانہ ہی دیکھتا ہے۔
٭٭٭٭٭