مضرصحت انجکشنز کے اسمگلر گرفتاری سے بچ نکلے

عمران خان
کراچی ایئر پورٹ سے کروڑوں روپے مالیت کے مضر صحت اور ممنوعہ انجکشن اسمگل کرنے والے ملزمان کسٹم افسران سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ 6 ہزار سے زائد بوسٹن اور سوماٹیک فارمولے کے ہارمونز والے انجکشن سائوتھ افریقہ سے دو بیگز میں چھپا کر لائے گئے تھے۔ تاہم اسمگلروں نے کراچی ایئرپورٹ پر بیگ لاوارث حالت میں چھوڑ دیئے اور خود فرار ہوگئے۔ ایئرپورٹ کلیکٹوریٹ کے پریونٹو افسران کو اسمگلروں کی معلومات ملنے کے باجود ایک ہفتہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے اور ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ہے۔ اس کے نتیجے میں سائوتھ افریقہ کے شہروں ڈربن،جوہانسبرگ، کیپ ٹائون اور پورٹ الزبتھ سے چلنے والے اسمگلروں کے نیٹ ورک کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ مذکورہ نیٹ ورک اب بھی بھاری مالیت میں مضر صحت انجکشن اسمگل کر کے بھینس کالونی سمیت دیگر آبادیوں میں سپلائی کر رہے ہیں۔ اسمگلروں نے اپنا طریقہ واردات تبدیل کرتے ہوئے اب خواتین کو بھی استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ کروڑوں روپے مالیت کی کھیپیں پکڑے جانے کے باجود یہ نیٹ ورک اب بھی سائوتھ افریقہ کے شہروں سے ان ممنوعہ انجکشنز کی خریداری میں مصروف ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ انجکشن کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکالنے کیلئے اسمگلروں کو بعض کرپٹ افسران اور اہلکاروں کی معاونت حاصل ہے۔
کسٹم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ہفتہ کے روز جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر تعینات کسٹمز حکام نے ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے بھینس کی دودھ دینے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے والے ممنوعہ ہارمونزانجکشن قبضے میں لیتے ہوئے مقدمہ درج کیا۔ چونکہ امپورٹ ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ 1950ء کے تحت یہ ممنوعہ انجکشن پاکستان میں لانے کی اجازت نہیں، اس لئے یہ اسمگلنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔ کسٹم ذرائع کے بقول اتحاد ایئرلائن نمبر EY-221 کے ذریعے ابوظہبی سے کراچی آنے والی مسافر خاتون کے سامان سے ایک کروڑ80 لاکھ سے زائد مالیت کے 6 ہزارممنوعہ انجکشن برآمد ہوئے۔ ذرائع نے بتایاکہ ممنوعہ انجکشن دوسوٹ کیسوں میںرکھے ہوئے تھے۔ محکمہ کسٹمزکو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ممنوعہ ہارمونز انجکشن کی اسمگل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر ایئرپورٹ پر تعینات کسٹمزافسران نے مسافروں کے سامان کی سخت نگرانی شروع کردی۔ ذرائع نے بتایاکہ کسٹم افسران دونوں سوٹ کیسوں کی نگرانی کررہے تھے لیکن ان سوٹ کیسوں کو کسی بھی مسافرکی جانب سے کلیم نہیں کیاگیا۔ محکمہ کسٹم نے دونوں سوٹ کیسوں کی جانچ پڑتال کی تو انکشاف ہواکہ ان میں ایک کروڑ 80 لاکھ مالیت کے 6000 ممنوعہ انجکشن (Boostin/Somatotropin) بھرے ہیں۔ ذرائع نے بتایاکہ کسٹمزکی جانب سے قبضہ میں لئے گئے سوٹ کیسوں پر مس ثمینہ فاروق کے نام کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔ تاہم ایئر پورٹ کلیکٹوریٹ پریونٹو کسٹم کے افسران کی جانب سے اس واقعے کو دبا دیا گیا اور خاموشی سے مقدمہ درج کرکے رپورٹ اعلیٰ حکام کو ارسال کردی گئی۔ چونکہ اس واقعے میں اسمگلرز صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے، اس لئے کسٹم حکام کی جانب سے اتنی بڑی مالیت میں پکڑی جانے والی مضر صحت انجکشنز کی کھیپ کے حوالے سے میڈیا کو بھی کوئی خبر جاری نہیں کی گئی، کیونکہ اس میں سبکی کا امکان موجود تھا۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو سائوتھ افریقہ میں موجود ذرائع نے بتایا ہے کہ اس وقت کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں سے درجنوں افراد سائوتھ افریقہ میں اسی غرض سے موجود ہیں جو وہاں سوماٹیک فارمولے کے انجکشنز کی خریداری کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس مقصد کیلئے سائوتھ افریقہ میں کئی برسوں سے مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کو بھی لاعلم رکھ کر ان کو استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں کئی پاکستانی مزدووں کو اس نیٹ ورک کے افراد کی جانب سے واٹس ایپ پر انجکشنز کے نام اور تصاویر بھیجی گئیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ مارکیٹ سے ان انجکشنز کے ریٹ معلوم کریں اور زیادہ مقدار میں خریدنے پر ڈسکائونٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ذرائع کے مطابق بعض پاکستانی مزدوروں نے یہ کام کرنے سے معذرت کی تاہم کئی لوگ ان کے جھانسے میں آگئے۔ ایسے ہی ایک واقعے میں تین ماہ قبل ایک برطانوی نژاد پاکستانی کو بھی استعمال کیا گیا۔ اسے کہا گیا کہ چونکہ اس کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ ہے اور کراچی ایئر پورٹ پر اس کی امیگریشن کلیئرنس فارن پاسپورٹ کائونٹر پر ہوگی، اس لئے اس کے سامان کے ساتھ یہ ممنوعہ انجکشن بھی با آسانی نکل جائیں گے۔ تاہم کراچی ایئر پورٹ پہنچنے پر کسٹم حکام نے شک ہونے پر ذیشان علی اعوان نامی اس شخص کو اس وقت گرفتار کر لیا تھا، جب وہ امارات ایئرلائن میں جنوبی افریقہ سے براستہ سعودی عرب پاکستان آیا اور گرین چینل سے کلیئر ہونے کی کوشش کی۔ ذیشان کے پاس موجود تین بریف کیسوں کو مشکوک سمجھ کر ان کی تلاشی لی گئی تو تینوں بریف کیسوں سے 10ہزار سے زائد ممنوعہ ہارمونز انجکشن برآمدہوئے جن کی مالیت تین کروڑ سے زائد بنتی تھی ۔
ذرائع کے بقول گزشتہ چند ماہ تک اسمگلروں نے یہ طریقہ واردات اختیار کئے رکھا کہ وہ انجکشنز کی اسمگلنگ کیلئے دہری شہریت کے حامل شہریوں کواستعمال کرتے رہے، جنہیں گرین چینل کی سہولت حاصل ہے۔ تاہم ذیشان کے گرفتار ہونے پر اس نیٹ ورک کو کم از کم 3 کروڑ روپے کا نقصان ہوا جبکہ کسٹم کے اعلیٰ افسران کو بھی معاملے کا علم ہوچکا تھا۔ اس لئے حالیہ دنوں میں اسمگلروں نے اپنا طریقہ واردات تبدیل کیا اور وہ سائوتھ افریقہ آنے جانے والی پاکستانی خواتین کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے لگے ہیں۔
سائوتھ افریقہ میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں ہزاروں بڑے کیٹل فارم موجود ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں بھینسیں اور گائے موجود ہوتی ہیں۔ تاہم چونکہ اس کاروبار سے زیادہ تر سفید فام شہری منسلک ہیں، اس لئے وہ حکومت کی جانب سے پابندی کے نتیجے میں یہ انجکشن کم استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کچھ علاقوں میں ایسی فیکٹریاں قائم ہیں جہاں بڑ ے فارم ہائوسز کے اندر ہی یہ انجکشنز تیار کئے جاتے ہیں اور ان کے اطراف سیاہ فام شہریوں کی آبادیاں موجود ہیں۔ بعض قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی رشوت لے کر یہاں سرگرم گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور یہیں سے سوما ٹیک انجکشن کی بھاری کھیپ تیار ہوکر سائوتھ افریقہ کی بلیک مارکیٹ میں فروخت کی جاتی ہے۔ ذرائع کے بقو ل پاکستان میں اس انجکشن کے بھینسوں کو استعمال کرانے کے نتیجے میں کینسر پھیلنے اور انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہونے کی موصول ہونے والی رپورٹوں کی روشنی میں جب سپریم کورٹ کی جانب سے اس کے استعمال پر پابندی عائد کرکے ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی، ایف آئی اے اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹس کو اس کے خلاف آپریشن کے احکامات دیئے، تو ملک کے اندر اس کی قانونی خرید و فروخت اور تیاری بند کرادی گئی۔ اس وقت سے اسمگلرز کیلئے بوسٹن ( Boostin) اور ( somatech) انجکشن کی اسمگلنگ سب سے پرکشش اور منافع بخش کاروبار بن کر سامنے آئی۔ جبکہ یورپ اور دیگر ممالک میں بھی یہ انجکشن ممنوع قرار پا چکا ہے۔ اس لئے سائوتھ افریقہ وہ واحد ملک ہے جہاں سے اس کی اسمگلنگ تاحال جاری ہے ۔
ذرائع کے بقول ہارمونز انجکشن پر پابندی کے ڈرگ ریگولیٹر ی اتھارٹی کے اس فیصلے کے خلاف کچھ تاجروں نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے اس فیصلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا۔ ہائی کورٹ کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا حکم امتناع ختم کرتے ہوئے ڈرگ ریگولیٹر ی اتھارٹی کا فیصلہ برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ کے واضح فیصلے پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور صوبائی ڈرگ انسپکٹرز نے کاروائیاں کرتے ہوئے یہ ممنوعہ انجکشن ضبط کرنا شروع کئے۔ انجکشن پر پابندی کے بعد کراچی میں بھی دودھ فروشوں نے دودھ کی قیمت میں اضافے کیلئے احتجاج شروع کر دیا اور دودھ کی قیمت کراچی سمیت ملک بھر میں بڑھا دی گئی۔ تاہم اس کے باوجود کراچی کی بھینس کالونی میں یہ انجکشن کھلے عام دستیاب ہے۔ ذرائع کے بقول اسمگلرز اس کا نام بدل کر ملک میں لا رہے ہیں۔ بھینس کالونی اور سپر ہائی وے پر وینٹری میڈیسن کی دکانوں پر یہ (lactatropin) کے نام سے دستیاب ہے۔ ذرائع کے مطابق اسمگلنگ کرنے والے اسے نام تبدیل کر کے لا رہے ہیں۔ پاکستان پہنچ کر اس پر لیبل تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں جب ڈپٹی کلکٹر کسٹم پریونٹو ایئرپورٹ واصف ملک سے رابطہ کیا گیا تو ان کہنا تھا کہ وہ کوششوں میں مصروف ہیں اور جلد ہی اس نیٹ ورک کے ملزمان کو گرفتار کرلیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment