وجیہ احمد صدیقی
چوہدری نثار علی خان کو سیاسی منظر نامہ بدلنے کی توقع ہے، اسی لئے سابق وزیر داخلہ پریس کانفرنس کرکے منظر عام پر آئے۔ چوہدری نثار کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ حکومت، مقتدر حلقوں اور اپوزیشن جماعتوں سب کو بند گلی میں جاتا دیکھ رہے ہیں۔ پہلے بھی یہ بات سیاسی اور عسکری حلقوں میں گردش کر رہی تھی کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ کو لپیٹ کر ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ لایا جائے گا۔ جو مارشل لا یا فوجی حکومت نہیں ہوگا، لیکن کام اسی طرح کرے گا۔ ان ذرائع کے مطابق موجودہ سیناریو میں جب پی ٹی آئی حکومت بالخصوص پنجاب میں کچھ ڈلیور کرنے میں ناکام رہی ہے، اس بات کے امکانات ہیں کہ جلد یا بدیر کسی بھی سطح پر تبدیلی آئے گی۔ ادھر اسلام آباد میں موجود بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ چوہدری نثار کے سیاسی منظر سے ہٹ جانے سے انہیں شاید اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا کہ ان کے اپنے حلقے میں مقبولیت کم ہونے سے ہو رہا تھا۔ کیونکہ ان کے سابق انتخابی حلقے میں ان کے حریف غلام سرور خان نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ چوہدری نثار قومی اسمبلی کے حلقے 59 سے شکست کھاگئے تھے اور صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 10 سے کامیاب ہوگئے تھے۔ تاہم انہوں نے اب تک صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف نہیں اٹھایا ہے۔ یہ حلقہ ہمیشہ سے غلام سرور خان کو مسترد کرتا رہا ہے اور چوہدری نثار نواز لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار ووٹرز نے لیگی امیدوار اور چوہدری نثار دونوں کو مسترد کر دیا۔ غلام سرور خان دو نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔ انہیں ایک نشست چھوڑنی تھی اور انہوں نے وہ نشست خالی کی جس پر وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے چلے آئے تھے۔ یعنی انہوں نے چوہدری نثار علی خان سے جیتی ہوئی نشست نہیں چھوڑی۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار نے اپنے حلقے میں بہت سے ترقیاتی کام کروائے ہیں اور انہی کے بل بوتے پر وہ 1985ء سے بلاشرکت غیرے الیکشن جیتتے رہے۔ لیکن 2018ء میں انہیں غیر متوقع شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب وہ اپنے حریف کی سرگرمیوں سے پریشان ہیں۔ جو ان کے حلقے میں 100 بستروں پر مشتمل ایک اسپتال، دو نئے کالج، 1122 کا ایک مرکز اور بنیادی صحت کے مراکز کو مزید اپ گریڈ کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ گندھارا اور پوٹھوہار یونیورسٹی سمیت راولپنڈی میں رنگ روڈ کے منصوبوں کو مکمل کر رہے ہیں، جو چوہدری نثار کا خواب تھے۔ دوسری جانب ان کے خلاف پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد منظور ہوچکی ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ چوہدری نثار 2018ء کے انتخابات میں پی پی 10 سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے، لیکن بطور ممبر حلف نہ اٹھا کر وہ اپنے حلقے کے عوام اور پنجاب اسمبلی کے ایوان کی مسلسل تضحیک اور توہین کر رہے ہیں۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ حلقہ پی پی 10 کے عوام اور پنجاب اسمبلی کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے چوہدری نثار کی اسمبلی رکنیت کو منسوخ کیا جائے اور اس حلقے میں دوبارہ الیکشن کروائے جائیں۔ اس کے لئے فی الفور قوانین اور قواعد انضباط کار صوبائی اسمبلی پنجاب 1997ء میں ترمیم کی جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان صوبائی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیتے ہیں یا نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر انہوں نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا تھا تو صوبائی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ کیوں نہیں دیا۔ وہ استعفیٰ یہ احتجاج کرتے ہوئے دے سکتے تھے کہ ان کے حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اور اگر صوبائی اسمبلی ان کی منزل نہیں تھی تو گزشتہ تین ماہ سے انہوں نے اس نشست کو خالی کیوں نہ کیا؟ کہیں وہ یہ تو نہیں چاہتے تھے کہ وزیر اعظم عمران خان پنجاب کی وزارت اعلیٰ انہیں پیش کریں۔ ذرائع کے بقول انہیں یہ بھی ایک امید ہے۔
دوسری جانب ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ فی الحال سیاسی منظر نامہ میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ حکومت میں تحریک انصاف براجمان ہے اور اپوزیشن میں نواز لیگ کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ اس ذریعے کے بقول چوہدری نثارسے پہلی بار سیاسی غلطی ہوئی۔ وہ تحریک انصاف کی گاڑی میں بیٹھے نہیں اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی گاڑی سے اتر گئے اور یوں دونوں مواقع ضائع کر دیئے۔ اس ذریعے کا کہنا تھا کہ دراصل چوہدری نثار علی خان قومی اسمبلی میں اپنی شکست کی وجہ سے مایوس ہوکر گھر بیٹھ گئے تھے اور انہوں نے اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست کا حلف بھی نہیں اٹھایا۔ لیکن اب چوہدری نثا کو مجبوراً مایوسی کی کیفیت سے باہر آنا پڑا ہے۔ چوہدری نثار نے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہ اٹھانے کی وجہ بتا دی ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ قانون میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ اسمبلی رکنیت کا حلف ایک خاص وقت کے اندر اندر اٹھایا جائے۔ انہوں نے تاحال اسمبلی رکنیت کا حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ وہ یہ کیسے قبول کر لیں کہ وہ اپنے حلقے کی صوبائی نشست تو جیت گئے لیکن قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے۔ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ اسمبلی رکنیت کا حلف اٹھانے کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنے حلقے میں ہوئی دھاندلی کو رد کرتے ہوئے الیکشن نتائج قبول کر لیے ہیں، جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’نون لیگ کے انتخابی نشان پر 4 انتخابات لڑ چکا ہوں۔ عوام کا نمائندہ بننا اعزاز ہے۔ میں چھٹی مرتبہ ایم پی اے کا انتخاب جیتا ہوں۔ اگر میں نے حلف لیا تو اس کا مطلب ہے کہ میں نے قومی اسمبلی کے انتخابات پر اپنی مہرثبت کر دی ہے۔ میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر 36 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیتا ہوں۔ اگر تحریک انصاف قومی اسمبلی کی نشست سے جیتی ہے تو صوبائی اسمبلی سے کیوں ہاری‘‘۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار کی باتیں درست ہو سکتی ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی شکست کے خلاف کوئی شکایت الیکشن کمیشن میں نہیں دائر کی ہے۔ بلکہ اپنی شکست کو عملاً تسلیم کرلیا تھا۔ اب ان کے اپنے حلقے سے حلف نہ اٹھانے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اگرچہ لاہور کے ضمنی انتخاب میں کامیاب ہونے کے باوجود بیگم کلثوم نواز نے حلف نہیں اٹھایا تھا لیکن وہ بستر مرگ پر تھیں۔ جبکہ ایسا کوئی جواز چوہدری نثار کے پاس نہیں ہے۔ لہذا ممکن نہیں کہ انہیں کسی نئے قانون کے تحت نااہل قرار دے دیا جائے۔
٭٭٭٭٭