والدین کی اطاعت کا نقد صلہ

والدین کے ساتھ حسن سلوک، ان کے ساتھ پیار و محبت، ان کے کام آنا، ان کی باتوں کو ہر بات پر ترجیح دینا، ان کی رضا حاصل کرنا، ان کی اطاعت کرنا ایسے کام ہیں کہ رب تعالیٰ بھی اس سے خوش ہوتے ہیں اور یہی تزکیہ نفس ہے۔ آپ کتنے ہی بڑے آدمی بن جائیں، والدین کیلئے آپ وہی ہیں، جو کبھی چھوٹے سے ہوا کرتے تھے۔ آپ کی ایک ایک ادا سے والدین خوش ہوتے تھے۔ آپ کی والدہ نے آپ کو کس طرح پالا پوسا، یہ وہی جانتی ہے۔ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ ذرا سا بیمار ہوئے تو وہ ساری رات جاگ کر گزارتی ہے۔ بچپن میں تجھے دودھ پلایا، اب تم بڑے ہوگئے ہو، اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی پہنچ گئے۔ بڑی ڈگری مل گئی اور نوکری بھی مل گئی، اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگئے۔ والدین بیٹے پر فخر کر رہے ہیں۔
ایک شخص نے خدا کے رسولؐ سے دریافت کیا: حضور! بتائیے کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں، اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد؟ تو ارشاد ہوا: ’’تیری ماں‘‘ اس نے پھر پوچھا: حضور! اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ نے پھر ارشاد فرمایا: ’’تیری ماں‘‘ چوتھی مرتبہ ارشاد ہوا: ’’اس کے بعد پھر تیرا باپ تیرے سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق ہے۔‘‘
والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بے شمار واقعات ہیں۔ آئیے ایک واقعہ پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔
یہ سعودی عرب میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔ اس واقعے کو بیس پچیس سال تو گزر ہی چکے ہوں گے۔ ایک بوڑھا باپ اپنے پچیس سالہ بیٹے کے ساتھ گھر میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ نوجوان اٹھا، دروازہ کھولا تو سامنے ایک اجنبی شخص نظر آیا، اس کے چہرے پر کرختگی اور ناراضگی کے آثار تھے۔ نہ سلام نہ دعا، وہ سیدھا اندر چلا آیا۔ نوجوان کے والد کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آرہے تھے۔
اس آدمی نے آتے ہی اس بوڑھے سے کہا: ’’خدا سے ڈرجاؤ اور میرا قرض واپس کرو۔ میں نے بہت صبر کیا ہے، اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔‘‘
نوجوان نے اپنے والدکے پریشان چہرے کو دیکھا تو اسے بڑا دکھ ہوا۔ اجنبی شخص اب قدرے بدتمیزی پر اتر آیا تھا۔ نوجوان نے تھوڑا سا صبرکیا اور پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، وہ اپنے والد کی توہین برداشت نہ کرسکا۔ اس نے پوچھا: بتاؤ! میرے والد نے تمہارا کتنا قرض ادا کرنا ہے؟ اس نے کہا: تمہارے والد نے میرے نوے ہزار ریال دینے ہیں۔
نوجوان کہنے لگا: آج کے بعد تم میرے والد کو کچھ نہیں کہو گے، بس! اب یہ قرض میرے ذمے رہا، تم کوئی فکر نہ کرو۔
بیٹا اپنے کمرے میں گیا، وہ کافی عرصے سے اپنی شادی کے لئے پیسے جمع کر رہا تھا، اس کی ہونے والی دلہن اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ان دنوں وہ شادی کی تیاری میں مشغول تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے ستائیس ہزار ریال جمع کیے تھے، بس تھوڑی سی رقم مزید باقی تھی اور پھر اس نے اپنی دلہن کو گھر لے آنا تھا۔
’’میں اپنے والد کی توہین برداشت نہیں کر سکتا، شادی پھر بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ اس نے سوچا اور ستائیس ہزار ریال لاکر اس شخص کی جھولی میں ڈال دیئے، فی الحال یہ ستائیس ہزار ریال پکڑو، باقی مبلغ کے بارے میں فکر نہ کرو، جلد ہی تمہیں مل جائیں گے۔
اس دوران اس نوجوان کا والد زور زور سے رونے لگا۔ یہ خوشی کے آنسو تھے کہ میرا بیٹا اتنا فرمانبردار اور متقی ہے۔ اس شخص سے کہنے لگا: یہ ستائیس ہزار میرے بیٹے کو واپس کر دو، اس نے بڑی محنت سے اپنی شادی کے لئے یہ رقم جمع کی ہے۔ یہ شدید ضرورت مند ہے، اس کا میرے قرض سے کیا تعلق اور اس کا کیا گناہ ہے؟ قرض تو میں نے تم سے لے رکھا ہے۔
اب نوجوان کی باری تھی، اس نے اس شخص سے کہا: یہ آپ اپنے پاس ہی رکھیں۔ میں باقی کا قرض بھی جلد ہی بندوبست کر کے تمہیں دے دوں گا۔ بس اب تم میرے والد کو تنگ نہیں کرو گے۔ اس آدمی کو بھی بڑی مدت بعد اتنی بڑی رقم ملی تھی، وہ واپس کیسے کر دیتا۔
اس دوران نوجوان اٹھا اور اپنے والد کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگا: بابا! آپ کی عزت، آبرو، مرتبہ اور مقام اس مبلغ سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ فکر نہ کریں، ہر چیز کا وقت مقرر ہے، میں بہت جلد اس کا قرض واپس کردوں گا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment