ایک بار بغداد کے کسی محلے میں خوفناک آگ لگی، جس سے کئی افراد جل کر مر گئے۔ کسی رئیس کے دو غلام بھی اسی آگ کے شعلوں میں گِھر گئے تھے۔ اس نے اعلان کیا کہ جو شخص میرے غلاموں کو آگ سے نکال لائے گا، اسے ایک ہزار دینار انعام میں دیئے جائیں گے۔ اتفاقاً حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ بھی ادھر سے گزر رہے تھے۔ آپؒ نے یہ اعلان سنا تو رئیس بغداد سے فرمایا۔
’’کیا واقعۃً تم اس شخص کو اتنا گرانقدر انعام دو گے، جو تمہارے غلاموں کو بچائے گا؟‘‘
’’ کسی کو میری بات پر شک نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ رئیس بغداد نے پرزور لہجے میں کہا۔
’’میں اپنے غلاموں کی زندگی کے عوض اسی وقت یہ رقم دینے کو تیار ہوں۔‘‘
حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ نے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی طرف دیکھا اور خدا کا کلام پڑھتے ہوئے اندر داخل ہوگئے۔ پھر تھوڑی دیر بعد انسانی ہجوم نے یہ ناقابل یقین منظر دیکھا کہ حضرت شیخ نوریؒ دونوں غلاموں کو لئے ہوئے آگ سے اس طرح باہر آگئے کہ آپؒ کا جسم بھی بھڑکتے ہوئے شعلوں کے اثرات سے محفوظ رہا اور دونوں غلاموں کو بھی نقصان نہیں پہنچا۔
رئیس بغداد نے حسب وعدہ ایک ہزار دینار آپؒ کی خدمت میں پیش کئے۔ حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ نے دولت کے اس ڈھیر کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ’’یہ تم اپنے پاس ہی رکھ لو۔ کیوںکہ تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ میں دولت کی حرص سے آزاد ہوں اور میں نے دنیا کو آخرت سے تبدیل کرلیا ہے۔ اس لئے حق تعالیٰ نے مجھے یہ مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ آگ کے شعلے میرے جسم کو کوئی گزند نہ پہنچا سکے۔‘‘
ایک بار حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ راستے سے گزر رہے تھے کہ آپؒ نے چند سپاہیوں کو دیکھا جو ایک ضعیف و ناتواں انسان کو زدو کوب کرتے ہوئے لئے جا رہے تھے، مگر وہ بوڑھا شخص انتہائی صبر و ضبط کے ساتھ سپاہیوں کی مار کھا رہا تھا اور منہ سے اف تک نہیں کرتا تھا۔ حضرت شیخ نوریؒ کو اس شخص کی قوت برداشت پر بہت حیرت ہوئی۔ آخر آپؒ نے سپاہیوں سے پوچھا:
’’تم اس شخص کو کہاں لئے جارہے ہو؟‘‘
’’ہم اسے زندان کے حوالے کرنے جا رہے ہیں۔‘‘ سپاہیوں نے کہا اور دوبارہ اس بوڑھے شخص کو پیٹنا شروع کردیا۔
حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ خاموشی سے یہ تکلیف دہ منظر دیکھتے رہے۔ حتیٰ کہ وہ ضعیف انسان اور سپاہی نظروں سے اوجھل ہوگئے، مگر آپؒ نے آخر تک اس ضعیف انسان کے منہ سے کوئی چیخ یا شکایت نہیں سنی۔
وہ رات حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ نے بڑے اضطراب کے عالم میں گزار دی۔ بار بار آپؒ کو سپاہیوں کے تشدد اور اس بوڑھے شخص کی خاموشی کا خیال آتا تھا۔ آخر حضرت شیخ نوریؒ سے برداشت نہ ہوسکا تو آپؒ قید خانے پہنچ گئے اور اس ضعیف و ناتواں انسان سے پوچھا:
’’اس قدر کمزوری اور نقاہت کے باوجود تم نے سپاہیوں کے تشدد پر کس طرح صبر کیا؟‘‘
بوڑھے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’صبر کا تعلق جسمانی طاقت سے نہیں، انسانی ہمت و شجاعت سے ہے۔‘‘
حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ کو اس شخص کے جواب پر حیرت ہوئی۔ پھر آپؒ نے دوسرا سوال کیا ’’تمہارے نزدیک صبر کیا کا کیا مفہوم ہے؟‘‘
ضعیف شخص نے کہا ’’آفات و مصائب کو اسی طرح خوشی کے ساتھ برداشت کرنا چاہئے، جس طرح لوگ مصائب سے نجات پا کر مسرور ہوتے ہیں۔‘‘
حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ کی حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
آپؒ کو حیران پا کر بوڑھے شخص نے کہا ’’آگ کے سات سمندر پار کرنے کے بعد انسان کو معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور جب حاصل ہو جاتی ہے تو پھر اسے اول و آخر کا علم بھی حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘
’’بے شک! اس کے چاہنے والے ایسی عجیب عجیب حالتوں میں رہتے ہیں کہ انہیں کوئی نہیں پہچان سکتا۔‘‘ حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ نے بوڑھے کا شکریہ ادا کیا اور قید خانے سے چلے گئے۔
دراصل یہ ایک مشاہدہ تھا جو حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ کو قدرت کی طرف سے کرایا گیا تھا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭