حضرت طاووسؒ اور ابن نجیح:
حضرت طاووسؒ بعض حکمرانوں کے پاس نصیحت اور تلقین کرنے کے لیے بخوشی چلے جایا کرتے تھے۔ بعض اوقات تنبیہ کے طور پر بلانے پر بھی حکمرانوں کے پاس نہیں جاتے تھے۔ ان کے ایک بیٹے بیان کرتے ہیں:
ایک سال میں ابا جان کے ساتھ حج کرنے کے لیے یمن سے روانہ ہوا۔ ہم نے دوران سفر ایک شہر میں قیام کیا۔ یہاں حکومت کی طرف سے ابن نجیح گورنر مقرر تھا اور اس کی شہرت اچھی نہ تھی۔ یہ حق کی مخالفت کرنے اور باطل کی طرف داری کرنے کی بنا پر بدنام ہو چکا تھا۔
ہم نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں گئے۔ وہاں ابا جان کی آمد کا سن کر یہ بھی انہیں ملنے کے لیے آگیا۔ اس نے آپؒ کے سامنے با ادب بیٹھ کر سلام عرض کیا۔ آپ نے اس سلام کا جواب نہ دیا، بلکہ نفرت کی بنا پر اس سے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس نے آپ کی دائیں طرف ہوکر بات کی۔
آپؒ اعراض کرتے اور منہ پھیرتے ہوئے بائیں طرف سے مڑ گئے۔ اس نے بائیں جانب ہوکر بات کی۔ آپ اس سے اعراض کرتے رہے۔
جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور کہا جناب! میرے ابا جان نے آپ کو پہچانا نہیں۔
اس نے کہا: آپ کے ابا جان مجھے پہچانتے ہیں۔ میرے ساتھ ان کا جو برتاؤ آپ دیکھ کررہے ہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ مجھے اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ پھر وہ خاموشی سے چلا گیا۔
جب ہم واپس اپنے کمرے میں آئے تو ابا جان نے غصے سے مجھے کہا: ارے احمق! تم غیر حاضری میں ان لوگوں کے خلاف باتیں کرتے ہو اور جب یہ سامنے آتے ہیں تو تم بھیگی بلی بن جاتے ہو۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کو نصیحت
حضرت طاووس بن کیسانؒ صرف حکمرانوں کی ہی وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے، بلکہ ہر اس شخص کو وعظ و نصیحت کرتے جو آپ سے مانوس ہوتا یا کسی ضرورت پر آپ کے پاس آتا۔
مشہور و معروف تابعی حضرت عطاء بن ابی رباحؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت طاووس بن کیسانؒ نے مجھے ایک حکمران کے پاس جاتے ہوئے دیکھ لیا، تو آپ نے مجھے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’عطاء میری بات غور سے سنو! اپنی کوئی ضرورت ایسے شخص کے سامنے پیش نہ کرو، جس نے اپنے دروازے بند کررکھے ہوں۔اپنے دروازوں پر دربانوں کو بٹھا رکھا ہو۔ بلکہ اپنی ہر ضرورت اس کے سامنے پیش کرو جس نے ہر دم اپنے دروازے اپنے بندوں کے لیے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ وہ تم سے مطالبہ کرتا ہے کہ مجھ سے مانگو اور یہ وعدہ کررکھا ہے کہ میں اپنے بندوں کی دعا کو قبول کروں گا۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭