3) محترمہ C بھی کمیٹی کی رکن ہیں۔ وہ کئی سال تک بنگال میں مقیم رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں وہ رہتی تھیں، وہاں کے مسلمان اچھے کردار کے لوگ نہیں تھے، یقیناً وہ غیر معمولی حد تک دیانت دار تھے، لیکن عادتاً جھوٹ بھی بولتے تھے۔ وہاں عورتوں سے جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا تھا۔ مرد اپنی ماں، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کی عزت کرتا تھا، لیکن اپنی بیوی کی ذرا پروا نہیں کرتا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان کی مقدس کتاب، قرآن انہیں یہی تعلیم دیتی تھی۔
میں نے اس خاتون کی متضاد باتوں پر بحث کرنا مناسب نہ جانا، تاہم قرآن سے متعلقہ حصوں کا ترجمہ پڑھ کر سنایا، جن میں بیویوں کے حقوق پر خصوصی زور دیا گیا تھا۔ لیکن جھوٹ واشگاف ہونے پر بھی انہوں نے کسی شرمندگی کا اظہار نہ کیا۔
(4) مسٹر D اس کمیٹی کے مرد رکن ہیں۔ وسیع المطالعہ عالم فاضل آدمی ہیں۔ ایک مشہور پبلک اسکول کے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ہیں۔ جب انہوں نے میری تبدیلی مذہب کا سنا تو انہوں نے گوہر افشانی فرمائی ’’جہاں تک میں جانتا ہوں، یہ مسلمان لوگ تو بس جنت کے تصور میں مگن رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہاں ان کے لیے عیش و عشرت کے لامحدود مواقع مہیا کیے جائیں گے۔ حالانکہ فطری جسمانی خواہشات تو موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہیں، آخرت کے حوالے سے ان کے بارے میں سوچنا ہی احمقانہ بات ہے۔
(5) مسٹر E ایک پادری ہیں۔ انہیں اس لیے بلوایا گیا تھا کہ وہ مجھے قائل کر کے دوبارہ آبائی مذہب پر لے آئیں۔ موصوف نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں میری سرزنش کی ’’کیا تمہیں احساس ہے کہ تم نے کتنا خوفناک اقدام کردیا ہے۔ یہ تو اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودنے والی بات ہے۔ اس طرح تو تم نے یسوع مسیحؑ کا انکار کر دیا ہے۔‘‘
’’ہر گز نہیں‘‘ میں نے جواباً کہا ’’میں اب بھی جناب مسیحؑ کا احترام کرتی ہوں اور ان کے ساتھ جناب موسیؑ اور دیگر پیغمبروں کا بھی، لیکن جناب محمدؐ کو خدا کا آخری نبی مانتی ہوں۔‘‘
’’تو گویا تم مسیحؑ کو موسیٰؑ کے برابر قرار دیتی ہو؟‘‘ پادری نے اعتراض کیا۔
’’جی ہاں۔ اسلامی نقطہ نظر سے سارے پیغمبر یکساں لائق عزت ہیں اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جناب موسیٰؑ نے ہی وہ خدائی احکامات (COMMANDMENTS) مہیا کیے تھے، جو حضرت عیسیٰؑ نے بھی اختیار کر لیے اور اگر عیسائی ان کی پابندی کرتے رہتے تو گمراہ نہ ہوتے۔‘‘
’’لیکن حضرت عیسیٰ ؑ الوہیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہیں حضرت موسیٰؑ پر فوقیت حاصل ہے۔ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔‘‘ پادری نے کہا۔
میں نے اس دعوے کا ثبوت مانگا، جو پادری کے پاس نہ تھا۔ اس کے برعکس میں نے باقاعدہ بائبل کا حوالہ دیا، جس میں جناب مسیحؑ اعتراف کرتے ہیں کہ میں ’’انسان کا بیٹا ہوں۔‘‘
لاجواب ہوکر پادری صاحب کہنے لگے: ’’کیا آپ عبادت کرتی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’کس کی؟‘‘
’’خدائے وحدہٗ لاشریک کی‘‘
’’آپ کالے لوگوں کے ساتھ کیسے کھڑی ہوتی ہیں؟ کیا آپ کے احساس پر چوٹ نہیں لگتی؟‘‘
’’رنگ سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’وہ عقیدہ کے اعتبار سے میرے بھائی ہیں۔ دراصل یہ صرف اسلام ہے جو عالمگیر اخوت اور مساوات کا درس دیتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ آج کی عیسائیت اس سے محروم ہے۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭