سرفروش

عباس ثاقب
میں نے بس سے اترتے ہی ایک سائیکل رکشے پر بیٹھ کر سلطانِ ہند حضرت نظام الدین اولیاؒ کے دربار چلنے کو کہا۔ اس بھرے پُرے شہر میں ایک وہی ایسی ہستی ہیں۔ جو رات اور دن، کسی بھی پہر اپنے در پر آنے والوں کو کبھی واپس نہیں پھیرتی۔
سائیکل رکشے والا مزید کچھ پوچھے بغیر تیز تیز پیڈل چلانے لگا۔ راستہ طویل تھا اور رات تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ اسے بھی روزی سمیٹ کر گھر جانے کی جلدی ہوگی۔
ہم دونوں میں راستے بھر برائے نام بات ہوئی۔ مجھے بڑے دروازے پر اتار کر اس نے میرے دیئے ہوئے دو روپے خوشی خوشی قبول کرلیے اور وہاں سے چل دیا۔ میں نے دربار کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد وضو خانے کا رخ کیا اور پھر حسبِ دستور پہلے طوطی ہند حضرت امیر خسروؒ کے در پر سلام پیش کیا اور پھر محبوبِ الٰہیؒ کی تربت پر حاضر ی دے کر درود و فاتحہ پیش کی۔
زائرین کے احاطے میں لگ بھگ سناٹا طاری تھا۔ میں نے اپنے پسندیدہ گوشے کا رخ کیا۔ حسبِ توقع وہاں چند ہی لوگ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر بستر بچھائے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ میں نے اپنے بیگ سے اونی چادر نکالی اور ایک طرف بچھی چٹائی پر لیٹ گیا۔ کینوس کا بیگ تکیے کے طور پر سرکے نیچے رکھا تھا۔ کچھ سوتے، کچھ جاگتے رات کٹ گئی۔ میں نے درگاہ سے ملحق بازار میں ناشتہ کیا اور واپس اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ مجھے دوپہر تک کا وقت وہیں گزارنا تھا۔
دراصل مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ جامع مسجد گزشتہ بار اختر خان صاحب سے ملاقات کی بہت عمدہ جگہ ثابت ہوئی تھی اور انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ہر جمعہ یہیں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ اور آج بھی جمعہ تھا۔
بارہ بجے سے ذرا پہلے میں درگاہ سے باہر نکلا اور ایک آٹو رکشا روک کر چاندنی چوک چلنے کو کہا۔ دلّی کی کشادہ سڑکوں پر دوڑتے رکشے نے مجھے چند ہی منٹوں میں جامع مسجد کے پہلو والے اس دروازے کے قریب اتار دیا۔ جہاں سے اخترخان مسجد میں داخل ہوا کرتے۔ میں محض احتیاطاً جلدی آگیا تھا۔ ورنہ مجھے معلوم تھا کہ ان کی آمد میں ابھی بہت وقت ہے۔ میں وقت گزاری کے لیے اسی چائے خانے میں جا بیٹھا۔ جہاں سے مذکورہ دروازہ میری نظروں میں رہتا تھا۔ چائے کا آرڈر دینے کے بعد میں نے میز پر پڑے اس روز کے اخبار کو اٹھا لیا۔
میں نے وہ اخبار کھنگالتے ہوئے چائے کی دو پیالیاں ختم کیں اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ مسجد میں پہنچ کر میں نے وضو کیا اور ایک ایسی جگہ بیٹھ گیا۔ جہاں سے میری توجہ کا مرکز دروازے سے اندر آنے والا ہر مسافر نظروں کے سامنے سے ہوکر گزر سکتا تھا۔
میں بے تابی سے انتظار کرتا رہا۔ لیکن اختر خان صاحب کی صورت نظر نہ آئی۔ حتیٰ کہ نماز کھڑی ہوگئی۔ میں نے نماز پڑھی اور پھر محض احتیاطاً سنتوں اور نفلوں کی ادائیگی میں مصروف نمازیوں کا جائزہ لیتے ہوئے مسجد کا چکر لگایا۔ لیکن بے سود۔ میں مسجد سے باہر نکل کر بھی انتظار کرتا رہا۔ لیکن مقصد حاصل نہیں ہوا۔ اب مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اختر خان صاحب کی یہاں یقینی آمد کے حوالے سے میرا اندازہ غلط نکلا ہے۔
اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ میں پاکستان کے سفارتخانے کا رخ کروں۔ میں نے ایک سائیکل رکشا روکا اور اپنے مطلوبہ علاقے کی طرف چلنے کو کہا۔ کافی طویل فاصلہ کرنے کے بعد رکشا پہلے گاندھی میدان اور پھر کوتوالی تھانے کے سامنے سے گزرا۔ جہاں ظہیر اور میں اپنی زندگی کے چند انتہائی تکلیف دہ اور سنسنی خیز دن رات گزار چکے تھے۔ کچھ مزید فاصلہ طے کرنے کے بعد رکشا کشادہ اور عالی شان دفتری عمارتوں کے علاقے میں داخل ہوگیا۔ میں نے حسبِ سابق رکشے کو سفارتخانے سے ایک فرلانگ پہلے ہی رکوالیا اور کرایہ ادا کرنے کے بعد پیدل ہی چل پڑا۔
مجھے لگ بھگ سو گز پہلے سے ہی اس علاقے میں کئی نمایاں تبدیلیاں نظر آنے لگیں۔ عمارت کے قریب واقع سفارتخانے کی جاسوسی کے اڈے کے طور پر کام کرنے والے سوامی کے اخبارات و جرائد کا کھوکھا غائب تھا۔ حلوائی کی دکان پر بھی تالا پڑا ہوا تھا۔ سڑک کنارے لگے پتھاروں کا بھی صفایا ہوگیا تھا۔ میں اندازہ ہی لگا سکتا تھا کہ یہ سب کارروائیاں خفیہ والوں کی طرف سے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ہی کی گئی ہوں گی۔
میں بظاہر بے نیازی سے سفارتخانے کے سامنے سے گزر گیا ۔ ویسے تو امید کم ہی تھی۔ لیکن قسمت آزمائی میں کیا ہرج تھا۔ شاید اختر خان کسی اور مسجد میں نماز جمعہ پڑھ کر واپس آتے ہوئے مجھے مل جاتے۔ لیکن میری یہ امید پوری نہ ہو سکی۔ میںکافی آگے جانے کے بعد واپس مڑا اور ایک پھر بے نیازانہ سفارتخانے کے سامنے سے گزرا۔ کاش میرے پاس اندر پیغام پہنچانے کی کوئی صورت ہوتی۔
میں بار بار وہاں چکر لگاکر نظروں میں آنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ اب تو میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ خفیہ والے کس ٹھکانے سے سفارتخانے کی نگرانی کر رہے ہوں گے۔ مجبوراً میں وہاں سے چلا آیا اور دو الگ الگ باغیچوں میں اونگھتے ہوئے آئندہ دو ڈھائی گھنٹے گزار دیئے۔
سفارتخانے کے عملے کی چھٹی کا وقت ہوا تو لگ بھگ ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر میں ایک بینچ پر براجمان تھا۔ آہستہ آہستہ سفارتخانے سے لوگ نکل کر جانے لگے۔ میں بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور سست قدموں سے ٹہلنے کے انداز میں اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا۔ مجھے اس دوران اپنے آپ پر غصہ بھی آرہا تھا کہ پچھلی بار کی طرح میں نے کسی موٹر سائیکل یا اسکوٹر کا انتظام کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ اگر سامنا ہونے کے باوجود اختر خان مجھے پہچاننے میں ناکام رہے تو ان سے ملاقات کی جگہ اور طریقہ کیسے معلوم ہو سکے گا۔
میں سفارتخانے سے تقریباً پچاس قدم دور تھا کہ اخترخان کی گاڑی عمارت کے دروازے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ یہ دیکھ کر میں نے رفتار کچھ بڑھا دی۔ مجھے لگا کہ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوجائیں گے۔ لیکن میں بروقت سفارتخانے کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ تبھی مجھے اختر خان باہر آتے دکھائی دیئے۔ لیکن ان پر نظر پڑتے ہی مجھے شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ وہ بیساکھیوں پر چل رہے تھے اور ہر اٹھتے قدم کے ساتھ ان کے چہرے پر اذیت کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ ان کی دائیں ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے غائب تھی۔ تبھی مجھے ان کی کشادہ پیشانی پر بھی مندمل زخم کا بڑا سا نشان دکھائی دیا۔ ان کی صحت بھی کافی گری گری نظر آ رہی تھی۔ مجھے لگا اس مختصر سے عرصے میں ہی ان کی عمر میں کم ازکم ایک عشرے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment