دوا میں خون کا استعمال؟
سوال: کیا کبوتر کا خون علاج کیلئے استعمال کر سکتے ہیں؟
جواب: خون ہر جانور کا حرام وناپاک ہے، اس کا غذا یا دوا کسی میں استعمال ہرگز جائز نہیں، البتہ بعض ضرورت و مجبوری کی شکلوں میں دوا میں خون کا استعمال درست ہوتا ہے۔ آپ کبوتر کا خون کس علاج میں استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ اور وہ کس طرح استعمال ہوگا؟ ان دونوں باتوں کی مکمل تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کریں۔ (فتویٰ:1320-1117/N=1/1440، دارالافتا، دارالعلوم دیوبند)
ایکسپورٹر کو ملنے والا انعام
سوال: میں ایکسپورٹ کا کاروبار کرتا ہوں، سرکار ہر مصنوعات کو ایکسپورٹ کرنے پر الگ الگ فیصد کے حساب سے فائدہ دیتی ہے؟ جیسے اگر میں نے پیاز ایکسپورٹ کی تو سرکار جتنے کی پیاز تھی، اس کا 3 فیصد اپنی جانب سے مجھے دے گی، اس طرح کی سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانا کیسا ہے؟
جواب: ایکسپورٹر کو مال ایکسپورٹ کرنے پر سرکار کی طرف سے بطور انعام جو کمیشن ملتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مال ایکسپورٹ کرنے سے ملک کی معیشت بڑھتی ہے، اس لیے سرکار ترغیب اور حوصلہ افزائی کے لیے ایکسپورٹر کو مختلف اشیا پر الگ الگ فیصد کے حساب سے ایک متعینہ انعام دیتی ہے اور اس انعام کے لیے سرکار ایکسپورٹر سے کسی طرح کی کوئی فیس وغیرہ بھی نہیں لیتی (جیسا کہ مجھے معلوم ہوا) اس لیے ازروئے شرع ایکسپورٹرز کو سرکار کی طرف سے ملنے والا یہ انعام بلاشبہ جائز ہے، اس میں کچھ شبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔(فتویٰ :1324-1149/N=1/1440، دارالافتاء ، دارالعلوم دیوبند)
گرین گلوری اسکیم کی کمائی؟
سوال: آج کل ایک اسکیم گرین گلوری (Green Glory) کے نام سے بہت تیزی سے چل رہی ہے۔ اس اسکیم میں یہ ہوتا ہے کہ Rs.2500 دے کر ممبر بن جائیے۔ ممبر بن جانے کے بعد اپنے نیچے چار لوگوں کو ممبر بنانا ہوتا ہے اور انہیں بھی اپنے اسی طرح ممبر بنانے ہوں گے۔ اس طرح یہ پوری چین کی شکل میں سسٹم چلتا ہے۔ اس سسٹم میں جتنے نئے ممبر شامل ہوں گے، اس کا فائدہ پرانے ممبروں کو ہوتا ہے اور پرانے ممبر کو پیسے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سسٹم کے ذریعہ سے جو پیسے ملتے ہیں، کیا وہ حلال ہیں یا حرام؟ کیونکہ اس میں لوگوں کو شامل کرنے کیلئے بہت محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ برائے مہربانی جلد جواب دیں، کیونکہ اس اسکیم میں کئی مسلم لوگ بڑی تیزی سے شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس اسکیم کے بارے میں مزید جاننے کیلئے آپ یوٹیوب یا انٹرنیٹ پر بھی دیکھ سکتے ہیں تاکہ آپ کو اس اسکیم کی تمام معلومات ہو سکے۔
جواب: یہ کوئی نئی اسکیم نہیں ہے، یہ بہت پرانی اسکیم ہے، جو در اصل سی ایم کے نام سے ہے، وہ یہ ممبر سازی کا کام کرتی ہے اور کمپنی کا نام بدل بدل کر سوالات بھیجتی رہتی ہے، بہت پہلے مفصل فتویٰ لکھا جاچکا ہے کہ مسلمانوں کو اس کمپنی میں شرکت نہ کرنی چاہئے۔ اس میں کمائی کا جو طریقہ کار ہے وہ جائز و حلال طریقہ نہیں ہے، بلکہ حرام ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ جائز و حلال کمانے کی کوشش کریں اور حرام کمائی سے دور رہیں۔ (فتویٰ : 1406-1080/B=12/1439، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
بینک کے زکوٰۃ کاٹنے کا حکم
سوال: بینک میں جمع شدہ رقم کی زکوٰۃ بینک کی طرف سے وصول کی جاتی ہے، کیا اس سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور دوبارہ خود دینے کی ضرورت تو نہیں پڑے گی؟
جواب: واضح رہے کہ بینک کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں: (1) حکومت یا بینک انتظامیہ کھاتے داروں کی اجازت سے ان کی اصل رقم سے زکوٰۃ نکال کر اسے مستحقین زکوٰۃ کو مالکانہ طور پر دے دیں تو اس صورت میں زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ ( 2) اگر حکومت یا بینک انتظامیہ کھاتے داروں کی اجازت کے بغیر ان کی اصل رقم سے زکوٰۃ وصول کریں تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، کھاتے دار کو چاہیے کہ وہ اپنی زکوٰۃ خود ادا کرے۔ (3) اگر حکومت یا بینک والے اصل رقم سے زکوٰۃ وصول نہیں کرتے بلکہ نفع کے نام سے جو سود کی رقم ان کے پاس جمع ہوتی ہے، اس میں سے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں تو کسی صورت میں زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی چاہیے کھاتے دار کی اجازت ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہ رقم سود کی ہے اور سود حرام ہے اور حرام مال سے زکوٰۃ ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، اس لیے کھاتے داروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ خود ادا کریں اور کسی حقیقی مستحق کو دے دیں اور یہی احتیاط کا تقاضا ہے، کیونکہ عام طور سے دیکھنے میں آتا ہے ارباب حکومت زکوٰۃ کی رقم مستحقین کو نہیں دیتے اور بسا اوقات اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یاد رکھیں بینک میں صرف کرنٹ اکائونٹ کھولنا جائز ہے، سیونگ اکائونٹ کا منافعہ سود او ر حرام ہے۔ (بدائع الصنائع، ج 2، ص53۔ شامی کتاب الزکوٰۃ ج2، ص 268۔ فتاویٰ عالمگیری، ج 5ص349، زکوٰۃ کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا)
٭٭٭٭٭